کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 23
ظاہری اور اہل الحدیث کے مصادر علمیہ سے یکساں طور پر استفادہ کیا جائے گایعنی سلف صالحین کے جمیع فقہی ذخیرے کو ایک ہی فقہ شمار کرتے ہوئے اس سے استفادہ ممکن ہو گا۔ڈاکٹر طاہر منصوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اجتماعی اجتہاد کی تحریک کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں تمام فقہی مسالک اور فقہاء کرام کے فقہی ذخیرہ کو بڑی حد تک مشترکہ علمی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں تمام فقہاء کرام کے اجتہادات و فرمودات سے یکساں استفادہ کیا جاتاہے۔ نئے مسائل کے حل میں کسی خاص فقہی مسلک پر انحصار کرنے کی بجائے تمام مسالک کے فقہی ذخائر سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور وہ نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے جو قرآن وسنت کی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو اور بندگان خدا کے مصالح اور عصر حاضر کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ اس طرح اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں ایک نئی اجتماعی فقہ وجود میں آ رہی ہے جو پوری امت مسلمہ کا مشترک علمی، فکری اور قانونی سرمایہ ہے۔‘‘ [1]
سلف صالحین کے طریقے کی اتباع
اجتماعی اجتہاد کا منہج و طریقہ کار کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ دورنبوت، خلفائے راشدین، تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کے دور میں اس کا بہت رواج تھا۔ خلفائے راشدین کا دور اجتماعی اجتہاد کے عروج کا زمانہ ہے۔حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا طرز عمل یہ تھا کہ جب ان کو کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو مدینہ میں موجود صحابہ کو بلواتے اور ان سے اس بارے مشورہ لیتے تھے اور باہمی مشاورت کے بعد کوئی رائے جاری کر دیتے تھے۔ تابعین کے زمانے میں مدینہ میں فقہائے سبعہ کی علمی مجلس قائم تھی۔ تاریخ کی کتب میں حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی مجالس کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ ائمہ اربعہ کے دور کے بعد بھی تاریخ اسلامی کے مختلف ادوار میں گاہے بگاہے اجتماعی اجتہاد کی کاوشیں جاری رہیں۔بر صغیر پاک و ہند میں ’’فتاوی ٰعالمگیریہ ‘‘اور سلطنت عثمانیہ میں ’’مجلة الأحکام العدلیة‘‘کی ترتیب و تدوین اجتماعی اجتہادی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ لہٰذا عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے طریقہ کار کو فروغ دینا درحقیقت خیرالقرون کی سنت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ اجتماعی اجتہاد و قیاس اس امت میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ غور کیا جائے تو پورے تسلسل کے ساتھ اس کی نظیریں ہمیں پچھلے چودہ سو سال کے اندر ملتی ہیں اور خود عہد رسالت کے اندر ملتی ہیں۔ اساری بدر (بدر کے قیدیوں) کے واقعہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ حضرات علمائے کرام کو معلوم ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا، اس میں خطا ہوئی اور اس پر عتاب بھی ہوا،
[1] منصوری، محمد طاہر، ڈاکٹر، اجتماعی اجتہاد ، تصور، ارتقاء اور عملی صورتیں : ص 23، ادارۃ تحقیقات اسلامیہ، اسلام آباد، 2007ء