کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 22
منافرت کی جگہ محبت و الفت کی فضاء پروان چڑھے گی۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء اور ان کے متبعین کے لیے ہمددری و اخوت کا جذبہ نمایاں رہے گا۔ عامۃ الناس کا علماء کے طبقے پر اعتماد بڑھے گا اور اسلام کے بارے میں سیکولر عناصر کا یہ اعتراض رفع ہو جائے گا کہ کون سا اسلام درست ہے؟ حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی؟ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (متوفیٰ 2010ء) لکھتے ہیں: ’’ دور جدید میں اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں غور و خوض ہو رہا ہے۔ اسلام کی دستوری فکر پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ مختلف مسلم ممالک میں دستوری تصورات پر مباحثے ہو رہے ہیں...یہ کام پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ مصر اور دوسرے عرب ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ ان میں سے کسی کام کو حنفی یا شافعی یا حنبلی یا مالکی مسلک کی حدود میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت دنیائے اسلام میں ’’اسلامی دستور سازی‘‘ کا کام ہو رہاہے۔’’حنفی دستور سازی‘‘ یا’’مالکی‘‘ اور ’’حنبلی دستور سازی‘‘ کا کام نہیں ہو رہا ہے۔پاکستان میں اگر اسلامی دستور کی طرف پیش رفت ہوئی ہے تو وہ اسلامی دستور کی طرف پیش رفت ہوئی ہے‘ کسی حنفی یا مالکی دستور کی طرف پیش رفت نہیں ہوئی ہے...اس لیے فقہ اسلامی کا یہ نیا ارتقاء اور یہ نیا رجحان مسلکی نہیں‘ بلکہ مسلکی حدود سے ماوراء ہے۔ اس لیے آئندہ آنے والے سال، عشرے یا صدی مسلکوں کی صدی نہیں ہو گی بلکہ یہ فقہ اسلامی کی مشترک صدی ہو گی۔‘‘ [1] ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ نے اس فقہ کو ’’کوسمو پولیٹن ‘‘فقہ کا نام دیا ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام میں باہمی مشاورت اور اشتراک عمل سے اجتہادی کام کیا جا رہا ہے۔ اس اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں۔ ایک نئی فقہ وجود میں آ رہی ہے جس کو نہ فقہ حنفی کہہ سکتے ہیں نہ مالکی، نہ حنبلی، نہ جعفری۔ بلکہ اس کو اسلامی فقہ ہی کہا جائے گا۔ میں اس کے لیے (Cosmopolitan Fiqh)یعنی عالمی یا ہر دیسی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔‘‘ [2] ایک تو جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے اسلامی فقہ کے حصول کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے،دوسری طرف مذاہب اربعہ اور اہل الحدیث کے کبار علماء پر مشتمل ایک ایسی فقہی مجلس تشکیل دی جا سکتی ہے جو سابقہ فقہی اقوال میں اجتہاد کرتے ہوئے ان میں راجح و مرجوح کا تعین کرے اور جمیع فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہوئے فقہ اسلامی کا ایک جامع انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کی ایک جماعت اجتماعی اجتہاد کے لیے جمع ہو گی تو وہ کسی ایک مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے یا ایک ہی فقہ کے اصول و فروع پر اپنے اجتہاد کی بنیاد نہیں رکھے گی بلکہ اجتہاد کی اس قسم میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی،
[1] غازی، محمود احمد، ڈاکٹر، محاضرات فقہ : ص477۔478، الفیصل غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور، 2005ء [2] ایضاً:ص534