کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 21
اسٹاک کمپنیاں کہ جن کے اصل زر کا علم نہ ہو، جدید معاشی عقود مثلاً برآمدات اور اسٹاک ایکسچینج نے جو قیمت نکالی ہے اس پر حصص کی خرید و فروخت، بحری اور ہوائی جہازوں کو آڈر پر تیار کروانے کے معاہدے وغیرہ، کرنسی کے تبادلے اور خرید و فروخت کے صیغوں کی رعایت، ہنڈی اور ڈرافٹ بل کی ادائیگی، میعادی بیوع، زمین کی پیداوار کے عوض اس کا کرایہ، قرض کی واپسی اس کے حصول والے دن کی قیمت پر ہو گی یا اس مسئلے میں کوئی رستہ نکالا جائے گا، جدید آلات اتصال مثلاً فیکس، ٹیلی فیکس اور ای میل وغیرہ کے ذریعے عقود کا اجراء، ایک جسم سے دوسرے جسم میں اعضاء کی منتقلی، اورخاص طور پر نئے اعضاء تخلیق کر کے ان کی پیوند کاری کہ جس میں ڈاکٹر وں کی ایک خاص رائے ہے اور اس کے علاوہ کئی ایک جدید مسائل ایسے ہیں کہ جن میں انفرادی اجتہاد کفایت نہیں کر ے گا بلکہ اس میں باہمی مشاورت اور علماء کی ایک جماعت کی آراء سے کوئی رائے نکالی جائے گی۔‘‘ [1] مجتہد مطلق کے حصول میں ابعاد یہ فکر بھی علماء کے حلقے میں عام پائی جاتی کہ علوم و معارف کی وسعت اور فقہ الواقع کے تنوع کی وجہ سے عصر حاضر میں مجتہد مطلق کا وجود بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اجتماعی اجتہادات کے ذریعے فقہی مجالس اس خلاء کو پر کر سکتی ہیں۔ اگرچہ انفرادی طور پر علماء میں مجتہد مطلق کی شرائط کا کامل درجے میں پایا جانا ممکن نہیں لیکن مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھنے والے علماء و متخصصین کی ایک جماعت اجتماعی طور پر ان شرائط پر پورا اتر سکتی ہے جو سلف صالحین نے اجتہاد مطلق کے ذیل میں بیان کی ہیں۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اجتماعی اجتہاد سے اجتہاد کی دو سطحوں پر کمال پیدا ہوتا ہے۔ ایک تو مجتہدین کی سطح پر اور دوسرا محل اجتہاد یعنی واقعاتی سطح پر۔ جہاں تک مجتہد کی سطح پر کمالیت کے حصول کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ درجہ اجتہاد تک پہنچنے کے لیے جو شروط مقرر کی گئی ہیں، ہمارے اس زمانے میں ان تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ اسی لیے اجتماعی اجتہاد میں علماء میں سے بعض ‘ بعض کی تکمیل کرتے ہیں اور اس طرح مجموعی طور پریہ سب علماء مجتہد مطلق کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ [2] اجتماعی اسلامی فقہ کا حصول اجتماعی اجتہاد کا ایک اہم محرک یہ بھی ہے کہ اس عمل کے ذریعے مدون ہونے والی فقہ’ اسلامی فقہ‘ کہلائے گی۔ اس اجتماعی فقہ کے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی پر بہت گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ باہمی
[1] الاجتهاد الجماعى ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص119۔120 [2] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص90