کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 19
انفرادی اجتہاد کے منفی نتائج کا سدباب بعض علماء کا خیال ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں اجتہاد کے عمل سے اس لیے منع کیاگیاکہ نااہل لوگ مجتہد بن بیٹھیں گے،فتویٰ دینے میں جلدی اور جرات کا مظاہرہ کریں گے لہٰذاخود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ چوتھی صدی ہجری اور مابعد کے أئمہ سلف نے اجتہاد کا انکار اس معنیٰ میں نہیں کیا کہ وہ قیامت تک کے لیے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر یہ اندیشہ تھا کہ بغیر اہلیت و صلاحیت کے لوگ مجتہد ہونے کا دعویٰ کریں گے اور فکری و علمی انتشار میں اضافے کا سبب بنیں گے، جبکہ عصر حاضر میں انفرادی اجتہاد کے عمل کو اجتماعیت کے ذریعے منضبط کیا جاسکتا ہے اور ائمہ سلف کی نسبت معاصر علماء میں علم وضبط کی جو کمی یا نقص پایا جاتا ہے، اسے ایک جماعت کا علم یا ضبط پورا کر سکتا ہے۔ آج انفرادی طور پر کسی شخص کا مجتہد مطلق ہونا تو مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن عالم اسلام کے نامور علماء کی ایک فقہی مجلس مجتہد مطلق کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’شروع شروع میں اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا جو فتویٰ جاری کیاگیا تو اس سے مقصود انفرادی اجتہاد پر پابندی لگانی تھی تاکہ نااہل لوگوں کو اجتہاد سے دور رکھا جاسکے۔ اس کے برعکس یہ کج فہمی عام ہو گئی اور رواج پا گئی کہ سلف کا مقصود مطلق طور پر اجتہاد کی ممانعت تھی۔ جبکہ اصل ذمہ داری یہ تھی کہ اجتہاد کے عمل میں لاقانونیت کو منظم کیا جاتااور یہ عمل ایک فرد کی بجائے جماعت کے ہاتھ میں پکڑایا جاتا، بجائے اس کے اس کا علاج یہ کیا جائے کہ اجتہا دکا دروازہ ہی بن کر دیا جائے۔‘‘ [1] ڈاکٹر محمد سلام مدکور حفظہ اللہ عصر حاضر کے مجتہدین اور ان کے اجتہادات کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اب تو یہ ہورہا ہے کہ ہر وہ شخص جس میں کچھ فقہی بصیرت پائی جاتی ہو، اجتہاد کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے اور لوگوں کے سامنے اپنی اجتہادی آراء پیش کرنا شروع کر دیتا ہے، اگرچہ اس میں اجتہاد کی اہلیت نہ بھی ہو اور اس میں اجتہاد کی اکثر و بیشتر شروط بھی نہ پائی جاتی ہوں۔ پس متضاد آراء اور پریشان خیالیاں سامنے آتی ہیں اور عوام الناس جس کو بھی پڑھتے یا سنتے ہیں، حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔‘‘ [2] استاذ مصطفی الزرقاء رحمہ اللہ(متوفیٰ 1999ء) نے بھی معاصر انفرادی اجتہاد کے عمل کے بارے میں اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ اسی طرح دین کو تجارت بنانے والے ان لوگوں سے بھی یہ اندیشہ ہے جو اس منہج پر اپنی کتابیں اور فتاوی شائع
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى:ص85 [2] أيضاً:ص85۔86