کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 17
الأحکام کی اس تطبیق کا نام اجتہا دہے۔ اجتہاد کی ایک صورت حکم شرعی کی تلاش ہے جبکہ دوسری صورت اس حکم کا اطلاق۔اجتہادی کی دوسری قسم کو فقہاء کی اصطلاح میں تحقیق المناط بھی کہتے ہیں۔ پس حکم شرعی کے اطلاق میں فقہ الواقع کا علم ہونا از بس ضروری ہے۔ عصر حاضر میں تحقیق المناط میں صحیح رائے تک پہنچنے کے لیے اجتماعی اجتہاد ایک بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔اس کی صورت یہ ہو گی کہ علماء کی ایک جماعت کسی بھی جدید مسئلے میں متعلقہ علوم کے ماہرین فن کے ساتھ بیٹھ کر پہلے اس مسئلے کو سمجھے گی اور پھر اس پر حکم شرعی کا اطلاق کرے گی۔ یہ واضح رہے کہ فقہ الواقع کو سمجھنے میں تو ماہرین فن سے مشورہ کیا جائے گا لیکن حکم کا اطلاق صرف علماء کی جماعت ہی کرے گی۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃلکھتے ہیں: ’’اکثر و بیشتر جدید مسائل کو اس قدر مختلف حالات اور تنوعات نے گھیرا ہوتا ہے اوران مسائل کا دوسرے علوم وواقعات کے ساتھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے بغیران قضایا کے جمیع پہلوؤں اور متعلقات کے احاطے پر قدرت حاصل نہیں ہوتی۔اکیلے شخص کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ان مسائل سے متعلقہ جمیع علوم و فنون کا احاطہ کر سکے۔ لہٰذا ان مسائل میں انفرادی اجتہادی آراء عموماً کوتاہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ پس بعض اوقات ایک عالم دین ان پیچیدہ اور الجھے مسائل میں ایک پہلو کو مدنظر رکھتا ہے تو دوسرا پہلو اوجھل ہو جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے ناقص رائے سامنے آتی ہے۔‘‘ [1] بعض اوقات فقہ الواقع کا صحیح فہم نہ ہونے کے سبب سے علماء کے لیے انفراد ی اجتہاد میں خطا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کسی حتمی رائے تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’دوسری طرف علمائے کرام کا یہ طرز عمل بھی محل نظر ہے کہ محل سے ناواقفیت یعنی متعلقہ مسئلہ کے’’ ماله وما علیه‘‘ اور اس کے حوالے سے مروجہ عرف و روایات سے عدم آگاہی کے خلا کو متعلقہ شعبہ کے کچھ افراد سے پوچھ گچھ کی صورت میں پُر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور حالات زمانہ اور مروجہ عرف و روایات سے اس درجہ کی ’’عملی ممارست‘‘ کوضروری نہیں سمجھا جا رہا جو کسی زمانے میں ہمارے فقہاء کا طرہ امتیاز ہوتی تھی۔ مثال کے طور عبادات اور لاؤڈ سپیکر کے جواز و عدم جواز کی بحث پر ایک نظر ڈال لیجیے جس میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے میں ہمیں کم و بیش ربع صدی کا وقت لگااور اگر اس کے اسباب کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑا سبب وہی لاؤڈ سپیکر کے تکنیکی معاملات’’ عملی ممارست‘‘ کا فقدان قرار پائے گاجس نے ہمیں ربع صدی تک
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص78