کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 15
مذہبی و گروہی تعصب میں کمی بعض علماء کا کہنا ہے کہ انفرادی اجتہادنے مذہبی و گروہی تعصب بڑھا دیا ہے۔ہر مذہب و مسلک کے علماء اپنی انفرادی حیثیت میں فتاویٰ جاری کرتے ہیں جو عموماًاپنے موقف کے اثبات سے زیادہ دوسرے کی رائے پر تنقید پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہی فتاویٰ جات مختلف مسالک کے علماء یا علمی حلقوں کے مابین مناظرے کی صورت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ایک دوسرے کے رد میں کتابیں اور علمی مقالے تحریر کیے جاتے ہیں اور مخالف مکتب فکر کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے مسلک کے بڑوں کی تعریف میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور مخالف مذہب کے علماء پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں عامۃ الناس میں بھی ایک دوسرے کے مسلک و مذہب کے خلاف نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل﷾لکھتے ہیں: ’’ اجتماعی اجتہاد کی دعوت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ انفرادی فتاویٰ میں اختلافات کے نتیجے میں باہمی مخالفتیں بڑھ جاتی ہے اور امت تنگی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر خاص و عام کے علم میں ہے۔اس مسئلے کا بہترین شاہد وہ اختلاف ہے جو علماء کے مابین حصص سرٹیفکیٹس کی حلت و حرمت کے بارے میں پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ یہ اختلاف باہمی طعن و تشنیع اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی حد تک پہنچ گیا۔ اس قسم کے شدید اختلاف کا عام مسلمانوں پر بہت ہی بر ااثر پڑا۔ اگر اس مسئلے کو کسی فقہی مجلس یا اکیڈمی کے ذریعے حل کر لیا جاتا‘ جیسا کہ بالآخر ایسا ہی کیا گیاتو ہم اس سب کچھ سے بچ سکتے تھے۔ جماعت کی رائے انفرادی رائے کے مقابلے میں نسبتاً صحیح ہو تی ہے اور یہ بھی ہے کہ اجتماعی رائے انفرادی رائے کے بالمقابل زیادہ قابل قبول ہوتی ہے۔‘‘ [1] بعض علماء کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں تفرقے کی بنیاد ہی انفرادی اجتہاد ہے لہٰذا اس پر پابندی لگا دینی چاہیے اور صرف اجتماعی اجتہاد کے منہج کو برقرار رکھا جائے۔شیخ عبد الوہاب خلاف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جن مسائل میں قرآن و سنت میں کوئی صریح حکم نہیں ہے تو ان میں اجتماعی اجتہاد ہو گا ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ جن لوگوں کے پاس اجتہاد بالرائے کا اختیار ہے ، ان سے مراد وہ قانون سازجماعت ہے جس کے ہر ایک رکن میں وہ اجتہادی صلاحیت پائی جاتی ہوجس کی طرف علماء نے رہنمائی کی ہے۔کسی بھی فرد کو اجتہاد بالرائے کا اختیار نہیں ہے ، چاہے وہ کس قدر اہلیت وصلاحیت اور کمالات کیوں نہ رکھتا ہو، کیونکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ
[1] الشعبان، محمد إسماعيل، الدكتور، الاجتهاد الجماعى ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه:ص 121، جامعة القاهرة، دار البشائر الإسلامية، بيروت، الطبعة الأولى، 1418 ھ