کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 14
میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض علماء اسلامی بینکاری کو جائز جبکہ بعض دوسرے اس کو ناجائز قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا ایک ہی مسلک کے ماننے والوں کے مابین حلال وحرام کے اختلاف پید ا ہوگئے ہیں۔ بعض مسائل میں تویہ اختلاف ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، الزامی تقاریر، جوابی تحریر اور طعن و تشنیع تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اجتماعی فتویٰ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے تاکہ فقہی مسائل و فتاوی کے اختلافات کم سے کم واقع ہوں۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ امت اسلامیہ کو اس وقت ان تمام چیزوں کی شدید ضرورت ہے جن سے اس کی وحدت مضبوط ہوتی ہو اور علماء جن مسائل کا حل پیش کریں، ان میں اتحاد رائے ہوتا کہ امت اپنی پالیسیوں اور باہمی تعامل میں یکسانیت پیدا کرسکے۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امت باہمی منافرت پیدا کرنے والی انفرادی آراء سے دورہوتے ہوئے اپنے مسائل اور مشکلات کا حل ایسی اجتماعی رائے کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، جو امت کو جمع کر دے اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کر دے۔ انفرادی آراء امت کے نظریات میں تفرقہ، صفوں میں افتراق اور احکام میں تشدد پید اکرتی ہیں۔ ان وجوہات سے عامۃ الناس انفرادی فتاویٰ کے معاملے میں حیران و پریشان ہو جاتے ہیں۔ امت کو عمومی مسائل میں ایک ہی رائے اور حکم کے حصول کی خاطر، اسی طریقہ کار پر عمل کرناچاہیے۔ شاید اجتماعی اجتہاد ہی وہ رستہ ہے، جس کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ [1]
یہ بات بھی واضح رہے کہ امت کی علمی و فکری اتحاد کی اہمیت مسلم ہے لیکن اتباع حق کے جذبے پر اس محرک کو غالب نہیں ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کیمرے کی تصویر کے جواز و عدم جواز کے بارے میں کوئی مشورہ کرنے کے لیے علماء کی ایک جماعت باہمی مذاکرہ کرتی ہے۔اور اگر اس مجلس کے بعض اراکین دلائل اور فکر و نظرکے اختلاف کے باوجود اجتماعی رائے کے حصول کی خاطر اپنی ان انفرادی آراء سے رجوع کر لیتے ہیں، جن کو وہ حق سمجھتے ہیں یا اتحاد امت کے جذبے کی خاطر بغیر غور و فکر اور تحقیق کے مجلس کے اجتماعی فتویٰ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں تو یہ ایک نامناسب طرز عمل ہے۔اسلام میں اجتماعیت مطلوب ہے لیکن ایسی بھی نہیں کہ تکلف سے پیدا کی جائے بلکہ باہمی آزادانہ مشاورت اور بحث و تمحیص کے نتیجے میں اگر علماء کی ایک جماعت کا کسی مسئلے کے شرعی حل پر اتفاق ہوتا نظر آتا ہے تو یہ مستحسن امر ہے۔ پس اجتماعیت کے حصول کے جذبے کو اتباعِ حق پر غالب نہیں آنا چاہیے۔
[1] السؤسوة، عبد المجيد، الدكتور، الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص88۔89، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر، الطبعة الأولى، 1998م