کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 13
سترہویں صدی ہجری کے صنعتی انقلاب ،بیسویں صدی ہجری کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں سارے عالم کو متاثر کیا، وہاں مذہب کی دنیا میں بھی اَن گنت سوال پیدا کر دیے۔ صنعتی ترقی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے کاروبار کی ہزاروں ایسی نئی شکلیں متعارف ہوئیں کہ جن کی شرعی حیثیت معلوم کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا تھا۔ سیاسی انقلاب نے جمہوریت، انتخابات، پارلیمنٹ، آئین اور قانون جیسے نئے تصورات سے دنیا کو آگاہی بخشی۔ معاشرتی تبدیلیوں سے مرد وزن کے اختلاط اور باہمی تعلق کی حدود و دائرہ کار جیسے مسائل پیدا ہوئے۔میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایجادات کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا، جس سے کئی ایک ایجادات کے بارے میں شرعی حکم جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی کے اَواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں عالم اسلام کے اکثر و بیشتر ممالک میں اجتہاد کی تحریکیں برپا ہوئیں۔تہذیب وتمد ن کے ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسائل میں علماء نے رہنمائی کی۔ فتاویٰ کی ہزاروں جلدیں مرتب ہوئیں اور اجتہاد کے عمل کو منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کئی ایک ادارے وجود میں آ نا شروع ہو گئے ۔ بیسیویں صدی ہجری کے نصف آخر میں اجتماعی اجتہاد کے لیے کئی ایک قومی اور عالمی سطح کے اداروں کی بنیاد رکھی گئی تاکہ اس دور میں اجتہاد کے مشکل ترین عمل کو اجتماعی صورت میں فروغ دیا جائے۔ ان اداروں میں مصر میں’’مجمع البحوث الإسلامیة‘‘پاکستان میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ یورپ میں ’’یورپی مجلس برائے افتاء وتحقیق‘‘ مکہ میں ’’المجمع الفقهي الإسلامي‘‘ سوڈان میں’’مجمع الفقه الإسلامی‘‘شمالی امریکہ میں ’’مجمع فقهاء الشریعة‘‘اردن میں’’المجمع الملکي لبحوث الحضارة الإسلامیة‘‘ہندوستان میں ’’ اسلامی فقہ اکیڈمی‘‘ کویت میں’’المنظمة الإسلامیة للعلوم الطبیة‘‘جدہ میں’’مجمع الفقه الإسلامي‘‘ اور مراکش کی ’’مجمع أهل البیت‘‘شامل ہیں۔ان اداروں کے قیام کے مقاصد، اور ان کی سرپرستی میں ہونے والے اجتماعی عمل کے اسباب یا محرکات کئی ایک تھے۔ مختلف علماء نے اپنے مقالہ جات میں ان اَسباب و محرکات کوبیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم ان میں چند ایک کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔ علمی و فکری وحدت اجتماعی اجتہاد کے محرکات و اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے امت مسلمہ میں فکری و علمی وحدت حاصل ہو گی۔ نئے پیش آمدہ مسائل میں جب مختلف مکاتب فکر، ممالک اور مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے علماء فتویٰ جاری کرتے ہیں تو ایک ہی فتوے میں متعدد متضاد آراء سامنے آتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے یہ باہم متضاد فتاویٰ اسلامی معاشروں میں بہت تیزی پھیل جاتے ہیں اور سائلین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے فتاویٰ