کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 125
ہونے کی بناء پر ضعیف ہے۔ مذکورہ اقوال سےمعلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں مرسل روایت سے ایک جگہ بھی حجت نہیں پکڑی ۔ البتہ مسئلہ کی وضاحت، کسی ذیلی فائدے کے بیان یا روایتِ مرسل کی عدمِ حجیت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے اسے کئی جگہ ذکر کیا ہے، چنانچہ یہ ’’معلق‘‘ اور ’’موقوف‘‘ روایات کی مثل صحیح بخاری کے اصل موضوع سے خارج ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، صحیح بخاری میں تکرارِ روایات کے فوائد میں رقمطراز ہیں: ’’اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ متصل اور مرسل روایات بیان کرنے کے بعد متصل کو راجح قرار دے دیتے ہیں اور مرسل کو اس لیے نقل کرتے ہیں تاکہ اس امر کی طرف اشارہ کر سکیں کہ متصل روایت کے مقابلے میں مرسل روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ [1] بلکہ مرسل روایت متصل کی تقویت کا باعث ہے ۔ اس کی مثال عمرو بن ابی سلمہ کی یہ روایت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں پہلے متصل روایت نقل کی ہے پھر اس کے بعد بروایت مالک عن وہب سے مرسل روایت بیان کی ہے ۔حافظ العلائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام بخاری رحمہ اللہ مرسل روایت کی عدمِ حجیت کے قائلین میں سے ہیں ۔‘‘ اور یہی موقف امام مسلم رحمہ اللہ نے محدثین سے بلا استثناء ذکر کیا ہے کہ ہمارے قول اور محدثین کے اقوال کے مطابق مرسل روایت حجت نہیں ہے۔ [2] خلاصہ بحث فقہائے کرام کے بارے یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ وہ مرسل روایت کو مطلقاً قبول کرتے ہیں، درست نہیں ہے۔ تحقیق کے مطابق فقہاء کا اس بات کا پر تو اتفاق ہے کہ صحابی کی مرسل روایت مطلقاً قبول کی جائے گی لیکن تابعین اور تبع تابعین کی مرسل روایات کے قبول وعدم قبول کے حوالے سے وہ شرائط عائد کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ راوی کی مرسل روایت قابل قبول ہے۔ امام شافعی﷫کے نزدیک ثقہ راوی کے علاوہ اگر عام علماء مرسل روایت پر عمل کریں یا اس کے مطابق فتویٰ دیں یا اس مرسل روایت کی دوسری مرسل روایت سے تائید ہو یا صحابی کے قول یا عمل سے اس مرسل روایت کی تائید ہوتی ہو، تو وہ حجت ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی مرسل روایت کو قبول کرتے ہیں لیکن مسند سے کم درجہ میں اس کو رکھتے ہیں اور قیاس اور رائے کی نسبت مرسل روایت سے احتجاج کو بہتر قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ مرسل روایت کو حجت نہیں مانتے البتہ متصل روایت کی تقویت کے لیے مرسل روایت کا ذکر جائز سمجھتے ہیں۔
[1] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، هدي الساري: 1؍27 ، دار الريان للتراث، القاهرة، الطبعة الأولى، 1407 ھ [2] صحيح مسلم، مقدمة، باب صحة الاحتجاج بالحديث المعنعن