کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 122
ایک جماعت ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کادوسرا قول یہ ہے کہ صرف صحابہ کی مراسیل مقبول ہیں اور اسی کے قائل امام شافعی رحمہ اللہ ، اصحاب ِظاہر اور محدثین ہیں۔‘‘ [1]
ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751ھ) جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اصول و قواعد سے بہت زیادہ واقف ہیں۔ انہوں نے حدیثِ مرسل کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کا مؤقف یہ بیان کیا ہےکہ حدیثِ مرسل اور حدیثِ ضعیف پر عمل کیا جائے گا اگر اس بارے میں کوئی او رحدیث اس کے مخالف نہ ہو اور امام احمد رحمہ اللہ حدیثِ مرسل اور حدیثِ ضعیف کو قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔ [2]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ مرسل حدیث کو قبول کرتے ہیں لیکن درجہ میں اس کو مسند (متصل) سے کم قرار دیتے ہیں اور قیاس اور رائے پر مرسل کو ترجیح دیتے ہیں۔ابو زہرہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ابن حنبل، حياته وعصره، آراؤه وفقهه‘‘ میں مرسل کے بارے میں امام احمد کی رائے ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’امام احمد رحمہ اللہ نے مرسل کو ضعیف احادیث میں شمار کیا ہے جن کی اصل مردود ہونا اور غیر مقبول ہونا ہے۔ اسی لیے انہوں نے مرسل پرصحابہ کے فتاویٰ کومقدم کیا ہے حالانکہ وہ صحابہ کےفتاویٰ کو صحیح حدیث پر کبھی بھی مقدم نہیں کرتے۔ چنانچہ یہ مقدم کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ وہ اس کو ضعیف شمار کرتے ہیں اور صحیح شمارنہیں کرتے۔‘‘ [3]
حدیثِ مرسل کی حجیت کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کو درج ذیل نکات کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے:
۱۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جمہور کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کی مرسل روایات بلا کسی قید مقبول ہیں۔
۲۔ غیر صحابی کی مرسل اس وقت حجت ہوگی جب اس کے خلاف کوئی اور نص، صحابی کا قول یا اجماع موجود نہ ہو۔
۳۔ صحابی کا فتویٰ غیر صحابی کی مرسل روایت پر مقدم ہوگا۔
۴۔ مرسل روایات قیاس پرمقدم ہیں۔
[1] الحنبلي، أبو خطاب، محفوظ بن أحمد، التمهید في أصول الفقه: 3؍130۔131، مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي، الطبعة الأولى، 1985م
[2] ابن القيم الجوزية، محمد بن أبي بكر، إعلام الموقعین: 2؍5، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1991م
[3] أبوزهرة، محمد بن أحمد بن مصطفى، ابن حنبل: حیاته وعصره، آراؤه وفقهه: ص267، دار الفكر العربي، القاهره