کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 119
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مالکیہ کی جانب مطلقاً حدیث مرسل کی حجیت منسوب کرنا درست نہیں ہے بلکہ مرسل راوی اگر خود ثقہ ہے اور ثقات سے ارسال کرتا ہے تب تو حدیث مرسل حجت ہوگی ورنہ نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کےنزدیک حدیثِ مرسل کی حجیت امام شافعی رحمہ اللہ کی نسبت عام طور پر مشہور ہےکہ وہ حدیثِ مرسل کو مطلقاً قبول نہیں کرتے۔ [1] امام شافعی رحمہ اللہ حدیثِ مرسل کو قبول کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک حدیثِ مرسل کا درجہ مسند حدیث سےکم ہے اور دوسری بات یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ حدیث کو قبول کرنے میں چند سخت شرائط عائد کرتے ہیں جس کی وجہ سے حدیثِ مرسل کی حجیت کا دائرہ کار تنگ ہوجاتا ہے۔ صحابہ کی مرسل احادیث امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حجت ہیں جیسا کہ جمہور فقہاء صحابہ کی مرسل احادیث کو قبول کرتے ہیں۔ [2]تابعین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ کبار تابعین کی مرسل روایات کو قبول کرتے ہیں مثلاً سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی مرسل روایت حجت ہے کیونکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جس راوی کو وہ ساقط کرتے ہیں وہ صحابی ہی ہوتا ہے۔ [3] شوافع میں سے امام غزالی رحمہ اللہ صحابہ کی مرسل احادیث کو بھی مطلقاً قبول نہیں کرتے بلکہ وہ اس میں ایک قید کا اضافہ کرتے ہیں۔ امام غزالی رحمہ اللہ المستصفیٰ میں رقم طراز ہیں: ’’والمختار ـ على قیاس رد المرسل ـ أن التابعي والصحابي إذا عرف بصریح خبره أو بعادته أنه لا یروي إلا عن صحابي قبل مرسله، وإن لم یعرف ذلك فلا یقبل، لأنهم قد یروون عن غیر الصحابي من الأعراب الذین لا صحبة لهم، وإنما ثبتت لنا عدالة أهل الصحبة. ‘‘[4] ’’مختار مذہب یہ ہے کہ تابعی رحمہ اللہ اور صحابی کے اپنے صریح قول یا عادت سے جب یہ پتہ چل جائےکہ وہ صرف صحابی سے ہی روایت کرتا ہے پھر تو اس کی مرسل روایت مقبول ہوگی اور اگر اس کا پتہ نہ چل سکے تو مقبول نہ ہوگی کیونکہ یہ حضرات بدؤوں میں سے غیر صحابی سےبھی بعض اوقات روایت کرلیتے تھے جن کو صحابیت کا شرف حاصل نہیں تھا او رہمارے نزدیک صرف صحابہ کی عدالت ثابت ہے۔‘‘
[1] الجوينى، أبو المعالي عبد الملك بن عبدالله، البرهان في أصول الفقه: 1؍634، دار النصار، قاهره، الطبعة الثانية، 1400 ھ [2] المحلي، جلال الدين محمد بن أحمد، شرح الورقات في أصول الفقه: ص180، جامعة القدس، فلسطين، الطبعة الأولى، 1999م [3] أیضاً [4] المستصفىٰ: 2؍282