کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 118
مالك.‘‘ [1]
’’ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب مرسل راوی ثقہ اور غیر ثقہ سے ارسال کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو اس کی مرسل روایت کے مقتضیٰ پر عمل کرنا جائز نہیں۔ البتہ جب مرسل راوی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ صرف ثقہ راویوں سے ارسال کرتا ہے تو جمہور فقہاء اس کی روایت پر عمل کرتے ہیں مثلاً ابراہیم نخعی(متوفیٰ94ھ) ، سعیدبن المسیب(متوفیٰ463ھ) ، حسن بصری(متوفیٰ110ھ) رحمہم اللہ ، صدر اوّل کے تمام فقہاء او ریہی قول امام مالک رحمہ اللہ کاہے۔‘‘
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفیٰ 463ھ) نے اپنی کتاب ’’التمهید‘‘ میں حدیث مرسل کےقبول کرنے کے لیےدو شرطیں ذکر کی ہیں:
۱۔ ایک تو یہ کہ ارسال کرنے والا راوی خود ثقہ ہو ۔
۲۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف ثقہ راویوں سے ارسال کرتا ہو۔ [2]
ان دو شرطوں کی بنیاد پر امام مالک رحمہ اللہ سے منقول پہلے قول کی تأویل کرنابھی ممکن ہے کہ حدیثِ مرسل اس وقت حجت نہیں ہوگی اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط یا دونوں شرطیں مفقود ہوں۔
یہ بات ظاہر ہے کہ مرسل روایات کو قبول کرلینا امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں عام تھا کیونکہ ثقہ تابعین رحمہم اللہ نے یہ بات واضح طور پر بیان کی ہے کہ اگر وہ حدیث کئی صحابہ سے روایت کریں تو وہ صحابی کا نام چھوڑ دیتے ہیں۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سےمروی ہے کہ جب کسی حدیث پر چار صحابی اکٹھے ہوجائیں تو میں اس کو مرسل بیان کرتا ہوں۔ انہی کا قول ہے کہ جب میں کہوں ’’حدثني فلان‘‘ تو وہ حدیث صرف اسی فلاں نے بیان کی ہے او رکسی نے نہیں کی۔ او رجب میں کہوں ’’قال رسول الله‘‘ تو میں نے وہ حدیث ستر یا یا اس سے زائد لوگوں سے سنی ہوگی۔اسی طرح امام اعمش (متوفیٰ 148ھ) کا قول ہےکہ انہوں نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سےکہا کہ جب آپ حضرت عبداللہ بن مسعود سے حدیث روایت کریں تو مجھے سند بھی بیان کردیا کریں۔ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نےجواب دیا کہ جب میں کہوں: ’’قال عبد الله‘‘ تو ایک سے زیادہ لوگوں نے حدیث بیان کی ہوگی۔ ان اقوال سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وضعِ احادیث کی کثرت سے پہلے ارسال عام تھا لیکن جب جھوٹ اور وضع احادیث عام ہوگیا تو علماء سند بیان کرنےکی طرف مجبور ہوگئے تاکہ راوی معلوم ہو او راس کے مذہب (عمل وعقیدہ)کا علم ہو۔ ابن سیرین رحمہ اللہ (متوفیٰ 110ھ) کا قول ہے کہ ’’ہم حدیث کی سند بیان نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ فتنہ پھیل گیا۔‘‘ [3]
[1] إحکام الفصول في أحکام الأصول: ص355
[2] ابن عبد البر، أبوعمر یوسف بن محمد، التمهید لما في المؤطا من المعاني والأسانید: 1؍17، دار إحياء التراث العربي، بيروت، الطبعة الأولى، 2000ء
[3] أبو زهرة، محمد بن أحمد، مالك: حیاته و عصره، آراؤه وفقهه: ص317