کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 112
میں وہ صحابی کا واسطہ چھوڑ دے۔ [1] ۲۔ حدیثِ مرسل وہ ہے جس کو کوئی تابعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے، برابر ہےکہ وہ تابعی بڑاہو یا چھوٹا ہو اور برابر ہے کہ وہ حدیث قولی ہو یا فعلی ہو۔ اکثر محدثین کےہاں یہی تعریف زیادہ مشہور ہے۔ [2] ۳۔ حدیثِ مرسل وہ ہے جس کی سند میں انقطاع ہو چاہے وہ انقطاع کہیں بھی ہو گویا ’’مرسل‘‘ حدیث ’’منقطع‘‘ کے معنیٰ میں ہے۔امام نووی رحمہ اللہ (متوفیٰ 676ھ) نے مسلم کے مقدمہ کی شرح میں اس قول کو فقہاء، اصولیین ، خطیب ابوبکر بغدادی (متوفیٰ 463ھ) اور محدثین کی ایک جماعت کی طرف منسوب کیا ہے۔ [3] حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (متوفیٰ 643ھ)علوم الحدیث میں محدثین کے نزدیک حدیث مرسل، منقطع اور معضل کا فرق بیان کرنے کےبعد فرماتے ہیں: ’’فقہ اور اصول فقہ میں معروف ہے کہ ان سب قسم کی احادیث کو مرسل کہا جاتا ہے۔ یہی مذہب محدثین میں سے ابوبکر خطیب رحمہ اللہ کا ہے۔ [4] اصولیین کے نزدیک حدیث مرسل فقہا اور اصولیین کے نزدیک حدیث مرسل کی تعریف میں توسیع ہے۔ ان حضرات کے نزدیک حدیث مرسل اس کو کہا جاتا ہے جس کی سندمیں کہیں بھی کوئی راوی گرا ہوا ہو اور سندمنقطع ہو، یعنی محدثین کی اصطلاح میں جس حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے ، اصولیین و فقہاء اس کو مرسل کا نام دیتے ہیں اور غیر متصل حدیث کی تمام اقسام یعنی منقطع ، معضل، معلق، مدلس، مرسل خفی اور مرسل ان سب کوحدیث مرسل ہی کہتے ہیں۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ (متوفيٰ 631ھ)حدیث مرسل کی تعریف میں کہتے ہیں: ’’اختلفوا في قبول الخبر المرسل وصورته: ما إذا قال من لم یلق النبي صلی اللہ علیہ وسلم وکان عدلا قال رسول الله. ‘‘[5]
[1] ابن الصلاح، عثمان بن عبد الرحمن، معرفة أنواع علوم الحدیث: ص51، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 2008م [2] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر: ص89، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 2009م [3] النووي، أبو زكريا يحيي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج:1؍28، دار إحياء التراث العربي، بيروت، الطبعة الثانية، 1392 ھ [4] علوم الحدیث لابن الصلاح: ص53 [5] الآمدي، سيف الدين أبي الحسن، الإحکام في أصول الأحکام: 2؍148، مكتبة ومطبعة محمد علي صبيح وأولاده، الطبعة الأولى، 1967م