کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 9
کتاب: رُشدشمارہ 04 مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی پبلیشر: لاہور انسٹیٹیوٹ فارسوشل سائنسز، لاہور ترجمہ: اداریہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم قارئین کرام! اس وقت رُشد کا چوتھا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں پہلا مضمون ’’اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ عصر حاضر میں علمی حلقوں میں اجتماعی اجتہاد کا کافی چرچا ہے اور راقم نے اس موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ’’عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ پنجاب یونیورسٹی سے 2012ء میں مکمل کیا تھا۔ عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے مناہج اور اسالیب کیا ہوں گے؟ اس بارے اہل علم میں کافی ابحاث موجود ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اجتماعی اجتہاد، پارلیمنٹ کے ذریعے ہونا چاہیے تو بعض علماء کی رائے ہے کہ اجتماعی اجتہاد کا بہترین طریق کار شورائی اجتہاد ہے کہ جس میں علماء کی باہمی مشاورت کے نتیجے میں ایک علمی رائے کا اظہار کیا جائے۔ اس مقالے میں اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے نقطہ نظر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے کہ یہ نقطہ نظر کس حد تک کارآمد اور مفید ہے۔ دوسرا مقالہ ’’علم حدیث اور علم فقہ کا باہمی تعلق اور تقابل‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ علم حدیث اور علم فقہ دو مستقل علوم شمار ہوتے ہیں اور دونوں کی اپنی کتابیں، مصادر، موضوعات، مصطلحات، اصول، مقاصد، ماہرین فن، طبقات اور رجال کار ہیں۔ اس مقالہ میں بتلایا گیا ہے کہ علم حدیث کا مقصد روایت کی تحقیق ہے اور یہ محدثین کا میدان ہے اور علم فقہ کا مقصد روایت کا فہم ہے اور یہ فقہاء کا میدان ہے۔ روایت کی تحقیق میں اہل فن یعنی محدثین پر اعتماد کرنا چاہیے اور روایت کے فہم میں اہل فن یعنی فقہاء پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہی اعتدال کا راستہ ہے۔ جس طرح کسی محدث کے لیے یہ طعن نہیں ہے کہ وہ فقیہ نہیں ہے، اسی طرح کسی فقیہ کے لیے یہ طعن نہیں ہے کہ وہ محدث نہیں ہے۔ محدثین کسی روایت کے قطعی الثبوت یا ظنی الثبوت ہونے سے بحث کرتے ہیں اور فقہاء کسی روایت کے قطعی الدلالۃ یا ظنی الدلالۃ ہونے کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ تیسرا مقالہ ’’تحقیق حدیث میں عقلی درایتی اصولوں کا قیام: محدثین کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ حدیث کی تحقیق میں روایت اور درایت دو اہم اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ روایت کا تعلق سند اور درایت کا متن سے ہے۔ محدثین عظام نے حدیث کی تحقیق روایتاً اور درایتاً دونوں طرح سے کی ہے اگرچہ بعض معاصر اسکالرز کا یہ دعوی ہے کہ حدیث کی تحقیق روایتاً تو ہوئی ہے لیکن درایتاً نہیں ہوئی جبکہ مقالہ نگار کے نزدیک یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ بعض معاصر اسکالرز حدیث کی تحقیق کے لیے جن درایتی اصولوں کو پیش کرتے ہیں وہ محدثین کے درایتی اصول نہیں ہیں۔ محدثین کے نزدیک حدیث کے مردود ہونے کہ وجوہات وہی ہیں، جنہیں اصول حدیث کی کتابوں میں بیان کر دیا گیا ہے لیکن کسی حدیث کا خلاف قرآن یا خلاف عقل ہونا اس کے مردود ہونے کی وجہ تو نہیں البتہ علامات و قرائن میں سے ضرور ہے۔ پس ایسی احادیث جو کہ حدیث کی اُمہات الکتب میں نہ ہوں، اور وہ خلافِ قرآن ہوں یا خلافِ عقل ہوں تو وہ مردود ہوں گی لیکن ان کے مردود ہونے کہ وجہ ان کی سند کا مردود ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہوتی۔ مقالہ