کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 43
کے بارے میں اچھی شہرت اس کو ثقہ بناتی ہے۔[1] اور کثرت رواۃ سے روایت میں قطعیت پیدا ہوجاتی ہے۔[2] تعارض الروایہ کی صورت میں جمع نہ ہونے کی صورت میں اقلیت پر اکثریت کو یا ثقہ پر اوثق کی بات کو ترجیح دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔[3] جبکہ فن فقہ میں جمہور کوئی دلیل ہیں، نہ شہرت اور نہ ہی تعارض الادلہ کی صورت میں أَفْقَہ کی فقیہ کے بالمقابل اور زیادہ فقہا کی رائے کو چند فقہا کے مد مقابل کوئی اہمیت ہے۔ یہاں اہمیت ہے تو صرف دلیل کو ہے، البتہ سب فقہاء اگر ایک بات پر متفق ہوں تو ان کی بات کو استدلال میں ایک مقام حاصل ہے۔[4] لیکن وہ بھی اس وجہ سے نہیں ہے کہ کثرت ایک دلیل ہے، بلکہ اس کے اسباب اور ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے فرق موضوع کے اعتبار سے بھی فن حدیث اور فن فقہ کا فرق بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ فن حدیث کا موضوع صرف اس قدر ہے کہ روایت وخبر کی تحقیق پیش کردی جائے کہ آیا یہ قائل کے اعتبار سے مستند بات بھی ہے یا نہیں؟بالفاظ دیگر حدیث وفقہ کے اس فرق کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ فن حدیث کا موضوع محض اتنا ہے کہ اس میں یہ تحقیق کی جاتی ہے کہ آیا مروی کے نقل ہونے میں کوئی خرابی تو نہیں کیونکہ خبر(یا جملہ خبریہ) کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ جس میں سچ یا جھوٹ دو پہلو پائے جائیں، چنانچہ محدثین رحمہم اللہ اصول روایت کی روشنی میں اس روایت کی تحقیق کر کے سچ یا جھوٹ کسی ایک پہلو تک پہنچتے ہیں۔[5] اسی لیے محدثین کرام رحمہم اللہ نے علم الحدیث کو علم الخبرکا نام دیا ہے، [6]کیونکہ حدیث فی الحقیقت صحابی کی اس خبرکو کہتے ہیں جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو آگے نقل کرتے ہوئے دوسرے لوگوں تک روایت کرتا ہے، جبکہ علم فقہ کا موضوع حدیث کے موضوع سے سراسر مختلف ہے کیونکہ فن فقہ میں روایت بطور خبر نہیں بلکہ بطور استدلال اور بطور استنباط مدنظر ہوتی ہے۔
[1] النووي، أبو زكريا، محي الدين يحي بن شرف، التقریب والتیسیر: ص 7، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الأولى، 1985م [2] السيوطي، أبو الفضل، جلال الدين عبد الرحمن، تدریب الراوی: ص109، دار طيبة، س ن [3] العراقي، زين الدين عبد الرحيم، التقیدوالأیضاح: ص21، دار الحديث للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، الطبعة الثانية، 1974م [4] آمدی، أبو الحسن علي بن أبي علي بن محمد، الإحکام في أصول الأحکام: ص200، مکتبة محمد علي صبیح، مصر، 1968م [5] العوني، حاتم بن عارف بن ناصر الشريف، المنهج المقترع لفهم المصطلح: ص105، دار الهجرة للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1416 ھ - 1996 م [6] الطحان، محمود الدكتور، تیسیر المصطلح الحديث: ص15، مكتبة المعارف، الرياض، الطبعة السابعة، 1985م