کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 34
کرے یانیا قانون بنائے۔‘‘ [1] اگرتو ہر شخص کو ہی یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ کسی قانون کے کتاب وسنت کے منافی ہونے کے بارے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے تو عدالتیں سارا سال قرآن وسنت کے منافی قوانین کے درخواستوں کی سماعتیں ہی کرتی رہیں گی۔اس لیے اس بارے اجازت ایک خاص درجے تک علم رکھنے والے اصحاب کے لیے ہونی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ کو مباح امور میں قانون سازی کا حق تو حاصل ہو لیکن اس پر عدلیہ کی نگرانی موجود ہو تو اس صورت میں پارلیمنٹ اگرچہ مجتہدین پر مشتمل نہ بھی ہو، پھر بھی قانون بنانے میں محتاط ہو گی اور کوئی بھی قانون سازی کرنے سے پہلے علماء و فقہاء سے مشورہ ضرورکرے گی۔ڈاکٹر اسرار احمد ﷫ لکھتے ہیں: ’’اگر ایسا ہو جائے گا توخود پارلیمنٹ قانون سازی میں خوب سوچ و بچار سے کام لے گی اور ماہرین کی رائے سے کوئی قانون بنائے گی۔پارلیمنٹ میں اگر کوئی بل پیش کیا جائے گا تو پہلے علماء سے مشورہ کیا جائے گا۔خود ارکان پارلیمنٹ کو یہ اندیشہ ہو گاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم تو سارے پاپڑ بیل کر اس قانون کو پاس کروائیں اور کوئی جا کرعدلیہ سے یہ فتویٰ حاصل کر لے کہ یہ تو کتاب و سنت کے خلاف ہے، اس طرح تو ہماری تمام تر محنت کے اوپر پانی پھر جائے گا۔اب بھی ہماری اسمبلی میں اگر کوئی بل پیش ہوتاہے تو اس پر ماہرین کی رائے لی جاتی ہے...پارلیمنٹ کا کام اجتہاد یعنی قانون سازی ہے۔اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ علماء کے اجتہاد سے فائدہ اٹھائے گی...آخر انہیں قانون بنانا ہے تو انہیں ملک کے اندر جو بھی اصحاب علم ہوں گے ان کی آراء سامنے رکھنی ہوں گی۔وہ ان آراء پر خود بھی غور و فکر کریں گے اور اپنے پاس ایسے ماہرین بھی رکھیں گے جو ان آراء کا اچھی طرح جائزہ لیں، ان کو( Scruitinize)کریں۔پھر اسمبلی وہ قانون پاس کرے گی۔اس کے بعد انتظامیہ(Executive) اس قانون کو نافذ کرے گی، اگر یہ کتاب و سنت کے منافی ہے تو عدلیہ(Judiciary) اسے کالعدم قرار دے گی۔چناچہ ان ریاستی اداروں کا علیحدہ علیحدہ کام کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘ [2] ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے نظریہ’ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ‘کے بارے ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے ہاں پارلیمنٹ کے اجتہاد سے مراد اجتہاد کا نفاذ ہے نہ کہ خود اجتہاد کرنا۔وہ فرماتے ہیں: ’’دور نبوت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اجتہاد کرنے اور اسے نافذ کرنے کا اختیار تھا اور یہی کیفیت بالعموم خلافت راشدہ میں جاری رہی...بعد میں جب بادشاہت کا دور آیاتو اجتہاد کا حق علماء کو حاصل ہو گیا، جبکہ اسے نافذ کرنے اور نہ کرنے کا اختیار حاکم وقت یا خلیفہ وقت کے پاس تھا۔آج کے دور میں قوت نافذہ چونکہ پارلیمنٹ کے پاس ہے، اس لیے پارلیمنٹ ہی اسے منظور اور نافذ کرے گی۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے جو بات اپنے خطبات میں کہی تھی کہ اجتہاد
[1] عہد حاضر میں اجتہاد کا طریق کار:ص19۔20 [2] أيضاً: ص19۔21