کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 33
and permissible in Islamic Sharia) کے معاملے میں کثرت رائے سے فیصلہ کر دے۔‘‘ [1] ڈاکٹر صاحب کی اس رائے پر جب یہ سوال پیدا ہو اکہ اس بارے میں بھی تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک امر کو مباح قرار دے رہی ہو اور قرآن وسنت کی روشنی میں علماء اسے حرام کہنے پر مصر ہوں۔اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس کے حل کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’لیکن کوئی شیء مباح ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس کے لیے آپ کو عدالت کا کنڈا کھٹکھٹانا ہو گا۔ اس سے﴿فردوه إلى اللّٰہ والرسول﴾ کا تقاضا کسی حد تک پور اہو جائے گا۔یعنی اسلامی ریاست کی عدلیہ یہ طے کرے گی کہ قانون سازی میں کتاب و سنت کے اصولوں سے تجاوز ہوا یا نہیں؟ اگروہ طے کر دیتی ہے کہ تجاوز ہو گیا ہے تو قانون کالعدم ہو جائے گا، لیکن عدالت نیا قانون نہیں بنائے گی۔قانون پھر اسی پارلیمنٹ کوبنانا ہے جو کتاب و سنت کے دائرے کے اندراندر ہو۔‘‘ [2] ڈاکٹراسرار احمد رحمہ اللہ کی یہ تجویز اس وقت قابل عمل ہو سکتی ہے جبکہ عدالتوں میں جو جج متعین کیے جائیں وہ علوم ِاسلامیہ سے واقف ہوں ۔ ہمارے نزدیک ایک دوسراقابلِ عمل حل یہ ہوسکتا ہے کہ صرف وفاقی شرعی عدالت ہی کو یہ اختیار دیا جائے کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر نظر ِثانی کر سکے اور اس عدالت میں مختلف مکاتب فکر کے فقہاء وعلماء کو مؤثر نمائندگی دی جائے۔ ڈاکٹراسرار احمد رحمہ اللہ کے بقول اس طریقہ کارکا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ہر شخص عدالت کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور یہ دعوی کر سکتا ہے کہ فلاں قانون کتاب و سنت کے منافی ہے ، لہٰذا اس کو ختم ہونا چاہیے۔وہ لکھتے ہیں: ’’اب قوت نافذہ اس مقننہ(Legislature)کے پاس ہے۔یعنی مباحات کے دائرے کے اندر کس چیز کو اختیار کیا جائے، یہ فیصلہ کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پا س ہے۔فرض کیجیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے قوت نافذہ کے استعمال میں کتاب وسنت سے تجاوز کیاہے تو میں جاؤں گااورعدلیہ(Judiciary)یعنی اعلی عدالتوں کا کنڈاکھٹکھٹاؤں گاکہ مجھے موقع دیا جائے، میں ثابت کرتا ہوں کہ قانون سازی میں کتاب و سنت سے تجاوز ہو گیا ہے۔یہ طریقہ ہے جو اس دور میں قابل عمل ہو گا۔ لیکن ظاہر بات ہے نئی قانون سازی کے لیے پھر پارلیمنٹ ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا، اس لیے کہ قوت نافذہ تو اس کے پاس ہے۔ورنہ اگر قانون سازی کا آخری اختیار عدلیہ کو دے دیا جائے توپھر تو عدلیہ کی حکومت ہو گئی۔پارلیمنٹ کا کام کیا رہ جائے گا؟ عدلیہ کا کام صرف ایک ماہرانہ رائے(Expert Opinion)دینا ہے کہ آیا کسی معاملے میں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز تو نہیں ہوگیا۔اگر نہیں ہوا توعدلیہ اس قانون کو برقرار رکھے گی۔اور اگر عدلیہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قانون سازی میں کتاب وسنت کی حدود سے تجاوز ہو گیا ہے تو یہ قانون واپس پارلیمنٹ کے سپرد کیا جائے گاکہ وہ اس میں ترمیم
[1] عہد حاضر میں اجتہاد کا طریق کار:ص18 [2] أيضاً: ص18۔19