کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 31
کے نقطہ نظر کے مطابق اسمبلی ممبران کی پاس کردہ قراردادیں، کتاب و سنت کے ماہر فقہاء و مجتہدین کی آراء کے بالمقابل قابل ترجیح ہوں گی کیونکہ سیاسی پارٹیوں کے اسمبلی ممبران کا اجتہاد، اجتماعی اجتہاد ہے ،جبکہ فقہاء ومجتہدین کا اجتہاد انفرادی اجتہاد ۔ ڈاکٹر یوسف گورایہ لکھتے ہیں:
’’اسلام میں اختیارِ حکمرانی پوری امت کو حاصل ہے۔اسلامی آئین کی اس دفعہ نے اسلام کو تمام مذاہب ِعالم پر جمہوری فوقیت عطا کر دی ہے۔اسلام میں جمہور مسلمانوں کی آزادانہ، منصفانہ اورغیر جانبدارانہ استصواب رائے عامہ کے ذریعے اختیار حکمرانی،ان کے منتخب نمائندوں کو منتقل ہوتا ہے۔جن پر مشتمل منتخب نمائندہ پارلیمنٹ، جمہور مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اجتماعی اجتہاد کا فریضہ انجام دیتی ہے۔منتخب پارلیمنٹ کا اجتماعی اجتہاد، انفرادی اجتہاد سے کالعدم، منسوخ یا تبدیل نہیں ہو سکتا۔کوئی انفرادی اجتہاد، چاہے وہ کتنے بڑے مجتہد کا ہو، اجتماعی اجتہاد کی جگہ نہیں لے سکتا۔انفرادی اجتہاد کوپہلے اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ منتخب پارلیمنٹ سے منوانا پڑے گا، پھر وہ اجتماعی اجتہاد پر اثر انداز ہو سکے گا۔‘‘ [1]
ڈاکٹر یوسف گورایہ کے بقول پارلیمنٹ کے اجتہادات تعبیر ِشریعت ہیں اور اگر پارلیمنٹ کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو جائے تو اس کی حیثیت اجماع کی ہو گی ،جیسا کہ کسی بھی ملک کے آئین پر پارلیمنٹ کا اجتہاد ہوتا ہے ، لہٰذا ریاست کے آئین کی مخالفت یااس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی اجماعِ امت کی خلاف ورزی کے قائم مقام ہے۔ڈاکٹر یوسف گورایہ لکھتے ہیں: ’’جمہور مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کا منظور کردہ آئین، اس دور کی تعبیر شریعت پر مبنی اجتماعی اجتہاد ہے۔ جو خطا سے مبرا ہے۔حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((إن اللّٰہ لا یجمع أمتي على ضلالة))میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی۔اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کا اجتماعی اجتہاد گمراہی پر مبنی نہیں ہوتا، گمراہی کے مقابلے میں ہدایت ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی اجتہاد ہدایت پر مبنی ہوتاہے... اس اعتبار سے اسلامی ریاست کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئین کو تقدس کادرجہ حاصل ہوتاہے۔‘‘ [2]
ڈاکٹر یوسف گورایہ مملکت پاکستان میں فوجی جرنیلوں کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاز(Marshal Laws) سے اس قدر رد عمل میں ہیں کہ وہ ایسے آمروں کو جہنم واصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اجتماعی اجتہاد اور اجماع کے تصور کو دلیل بناتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’ان مباحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کو آمریت کے ذریعے ختم کرنا اور منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ آئین کوآمریت کے ذریعہ کالعدم قرار دینا یامنسوخ کرنا یا تبدیل کرنا ’’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘‘ہے۔مومنین کی روش سے ہٹ کر چلنا ہے۔جو جہنم کی طرف جاتی ہے اور آمر کو واصل جہنم بناتی ہے۔قرآن وسنت کی مستند،مسلمہ اور مصدقہ تعلیمات کے مطابق ایسے مجرم کو دنیا میں شدید
[1] گورایہ، محمد یوسف، اسلام آئین اور صوابدید: ص38 ، زین پبلشرز،لاہور، 1994ء
[2] اسلام آئین اور صوابدید:ص41