کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 30
طرف سے اجتماعی اجتہاد کے لیے مذاہب أربعہ کے علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی تھی جو بعض عائلی قوانین، اجتماعی اجتہاد کے ذریعے مرتب کر رہی تھی۔ان علماء کی کمیٹی کا ایک مسودہ قانون 1916ء میں مصر سے شائع بھی ہو چکا ہے جو 1917ء میں دوبارہ تنقیح و تہذیب کے بعد شائع ہوا تھا۔پس علامہ اقبال رحمہ اللہ کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کا تصور سب سے پہلے پیش کیا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے کہ ان کے خطبہ اجتہاد سے پہلے امت مسلمہ میں اجتماعی اجتہاد کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ اجتہاد کی ضرورت کے داعی تھے یا مجتہد مطلق ؟ بعض ماہرین ِاقبالیات کا یہ بھی خیال ہے کہ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے نہ کہ خود کو مجتہد قرار دیا ہے لیکن یہ دعوی امر واقعہ کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے مطلق اجتہاد کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے خطبہ اجتہاد میں وہ ہمیں اُس وقت ایک مجتہد مطلق کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، جب وہ کسی نص کے فہم پر امت کے اجماع کی حجیت کاانکار کرتے ہیں یا وہ قرآن کی ابدی سزاؤں کو عربوں کے مزاج اور مخصوص تمدنی حالات کے ساتھ خاص کرتے نظر آتے ہیں۔کئی ایک ماہرین اقبالیات نے ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے اجتہادات کی فہرستیں مرتب کی ہیں۔جناب محمد ظفر اقبال لکھتے ہیں: ’’آج ماہرین اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ اقبال رحمہ اللہ نے اجتہاد کی ضرورت کا دعویٰ کیا ہے لیکن خود مجتہد بننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ ہم اس بیان سے اتفاق کے باوجود اپنے ان کرم فرماؤں کو دعوت دیتے ہیں کہ اقبال کے ’اجتہادات‘ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی کتاب ’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘ کے چھٹے باب میں بہ عنوان ’اجتہاداتِ اقبال‘ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ اگر اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہا جائے کہ یہ اقبال کا ’اجتہاد‘ نہیں بلکہ ان کی ’رائے‘ ہے تو پھر ہم ادب سے عرض کریں گے کہ آپ حضرات کے خامۂ گوہر بار کو اس وقت جنبش کیوں نہ ہوئی جب ڈاکٹر خالد مسعود صاحب اور ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ صاحب (جو اقبال کو ’مجتہد مطلق‘ باور کراتے ہیں) اقبال کی مختلف آراء کو ’اجتہاداتِ اقبال‘ کے نام سے شائع فرما رہے تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت ’وضاحتی مضمون‘ شائع کر دیا جاتا۔ اگر کسی کے مقام کو اس کی اصل حیثیت سے گرانا غلط بات ہے تو مداح سرائی میں غلو و افراط بھی قابلِ تردید و مذمت ہے۔‘‘ [1] ڈاکٹر یوسف گورایہ کا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے اس فلسفے کو کئی ایک مفکرین نے ایک نظامِ فکر کے طور پر پیش کیا۔ڈاکٹریوسف گورایہ
[1] ساحل کے مباحث پر نقد، ( ماہنامہ) ساحل، کراچی، نومبر2006ء، ص78