کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 29
جن پر ان کے قلم نے ایک مدت کی تلاش کے بعد آرام کی سانس لی اور جس منزل پر پہنچ کر ان کے خیال کے مسافر نے اقامت اختیار کی۔ اس بنا پر آج کل رسالوں کے کارخانوں میں جو مال تیار ہوتا ہے اور اس پر ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے نام کامارکہ لگا کر جو دکان داری کی جا رہی ہے، وہ ہمت افزائی کے لائق نہیں۔ کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستان میری ۔‘‘ [1] ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے خطباتِ اقبال کو ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے غور فکر کے درمیانی مراحل قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’اس سلسلے میں بحث شروع کرنے سے قبل یہ امر واضح کرناضروری ہے کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے علامہ اقبال رحمہ اللہ کا فکری مقام بلاشبہ مسلم ہے اور اس تناظر میں فکر اقبال کی اپنی جگہ اہمیت بھی بجا ہے لیکن علامہ کی اس حیثیت کا یہ لازمہ نہیں کہ انہیں أئمہ سلف کے مقابل لا کھڑا کیا جائے اور پھر اس تقابل کے نتیجے میں أئمہ سلف کو دور ملوکیت کا پروردہ جبکہ اقبال کو ’اسلامی نشاۃ ثانیہ‘ کا ’حدی خوان‘ قرار دیا جائے جیسا کہ اقبال رحمہ اللہ کے بعض مداحوں کا شیوہ ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ أئمہ سلف اور اقبال کے میدان ہائے کار الگ الگ تھے اور انہیں پیش آنے والے حالات میں بھی باہمی مماثلت موجود نہیں۔جو لوگ اسلامی ریاست کی فکری تشکیل میں علامہ کے نظریات کو دلیل بناکر انہیں مجتہد مستقل کا مقام دیناچاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے یہ نظریات ان کی ٹھوس آراء کی بجائے ان کے ارتقائی نظریات تھے۔چناچہ کائنات ارضی کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر غور و فکر کے نتیجے میں اقبال رحمہ اللہ کے ان نظریات کو، جو فکر اقبال کے حاملین کو ان کے عقائد نظر آتے ہیں، منزل تک پہنچنے سے قبل اس راہ کی بھول بھلیوں یا درمیانی مراحل کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔‘‘ [2] کیا ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے پہلی دفعہ اجتماعی اجتہاد کا تصور پیش کیا؟ بعض ماہرین ِاقبالیات کا یہ دعوی ہے کہ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے پہلی دفعہ اپنے خطبہ اجتہاد میں اجتماعی اجتہاد کا تصورپیش کیاجبکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ تاریخی واقعات کی روشنی میں ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ اجتہاد کی تالیف کا وقت بعض ماہرین ِاقبالیات کے نزدیک 1920ء ہے جبکہ بعض کے ہاں1922ء یا 1924ء یا 1925ء ہے۔بہر حال کسی کا بھی کہنا یہ نہیں ہے کہ 1920ء سے پہلے ہی ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے یہ خطبہ لکھ لیا تھا۔دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مصر میں 1911ء میں ہی حکومت مصر کی
[1] ادارہ ساحل،أمالی غلام محمد : سہیل عمر کے اعتراضات کا جائزہ،(ماہنامہ) ساحل، کراچی،جلد1، شمارہ 9، ستمبر2006ء،ص (ج) [2] مدنی، عبد الرحمن مدنی،حافظ، اجتماعی اجتہاد کے تناظر میں تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ:ص14۔15،مجلس تحقیق اسلامی، لاہور، 2005ء