کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 28
کے قائل تھا۔ پھر خطبات آخر کس کے لیے لکھے گئے؟ یہ اہم ترین سوال ہے۔ اس کا جواب سہیل عمر نے عمدگی سے دیا ہے کہ اپنے لیے لکھے گئے تھے۔‘‘ [1] لیکن اس بات کومان بھی لیاجائے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یہ خطبات اپنے لیے لکھے تھے تو یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بعض اوقات خود اقبال رحمہ اللہ کو بھی ان خطبات کی بعض عبارتوں کا مفہوم سمجھ نہ آتا تھا۔نذیر نیازی (متوفیٰ1977ء) نے جب اقبال رحمہ اللہ سے خطبات کے بعض مقامات کے مفاہیم سمجھنا چاہے تو اقبال رحمہ اللہ نے ان کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ معلوم نہیں کس وجدانی کیفیت میں ان سے یہ عبارتیں صادر ہوئیں اور ان کو سمجھنے کے لیے بھی اسی وجدانی کیفیت یا حال میں واپسی ضروری ہے۔ماہنامہ’ ساحل ‘کے مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’ خود علامہ اقبال رحمہ اللہ خطبات کے بہت سے مقامات کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ نذیرنیازی کے حوالے سے اسرار سہاروی نے لکھا ہے کہ جب نذیر نیازی نے اقبال رحمہ اللہ سے بعض مقامات کے مطالب سمجھنا چاہے تو حضرت علامہ نے فرمایا : نذیر! یہ مقامات وہ ہیں جن پر خود غور و فکر کرتا ہوں تو ذہن پر واضح نہیں ہوتے، نامعلوم کسی وجدانہ کیفیت میں، میں نے یہ باتیں لکھیں۔ یہ تمام مقامات وجدانی ہیں، فکری نہیں، وجدان کے ذریعے سے ہی گرفت میں آسکتے ہیں، انھیں پڑھتے رہو کبھی تم پر بھی اگر میری جیسی وجدانی کیفیت طاری ہوئی تو کشف کے طور پر ظاہر ہوجائیں گے لیکن تم محسوس کرسکو گے ان کا اظہار یا ابلاغ نہ کرسکو گے۔ یہ بالکل معرفت کا سا معاملہ ہے۔ نذیر نیازی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: تو حضرات وہ وجدان مجھے ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔‘‘ [2] ’خطباتِ اقبال‘ ڈاکٹر اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء کے درمیانی مراحل ’خطباتِ اقبال‘ درحقیقت اقبال رحمہ اللہ کے فکری ارتقاء کے مختلف مراحل ہیں اور ان کو اقبال رحمہ اللہ کی آخری فکر سمجھنا درست نہیں ہے۔لیکن ماہرین اقبالیات کا ایک طبقہ اقبال رحمہ اللہ کے خطبات کو ان کی پختہ فکر اور آخری رائے کے طور پر پیش کرتاہے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ایسے ہی افراد کے بارے میں، جواقبال رحمہ اللہ کے فکری ارتقاء کے مختلف مراحل کو مد نظر رکھے بغیر ان کے کلام سے استدال کرتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’آج کل ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے نام سے متعدد رسائل نکل رہے ہیں اور مجلسیں قائم ہو رہی ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اشخاص بھی بتدریج ترقی کر کے منزلِ مقصود کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے خیالات بھی اسی تدریج کے ساتھ کمال کے مرتبے کو پہنچتے ہیں۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ہر شئے جو ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے کلام کے فائل میں نکل آئے وہ ان کی تعلیم ہے تو سراسر غلط ہوگا، بلکہ وہی چیزیں ان کی تعلیمات کے عناصر ہوں گی
[1] ادارہ ساحل،خطبات اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، (ماہنامہ) ساحل، کراچی،جلد 1، شمارہ 6، جون 2006ء، ص7 [2] علماء کے خوف سے خطبات کا اردو ترجمہ نہیں کیا گیا: ص35۔36