کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 27
ہے۔اور اس مقام و مرتبے کے لیے تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ وغیرہ جیسے علوم میں پختگی ضروری ہے اور ان علوم میں رسوخ ہر ایرے غیرے کو حاصل نہیں ہوتابلکہ وہ شخص جو دوسرے علوم میں تو ماہرہولیکن اس نے علوم شرعیہ کو ان کے بنیادی مصادر سے نہ سیکھا ہو،اس کے لیے بھی ان دینی علوم کی خدمت کرناممکن نہیں ہے۔ آج کل پارلیمنٹ کے اراکین اپنے دینی علم یا علوم شرعیہ میں رسوخ کی بنیاد پر منتخب نہیں کیے جاتے۔پس پارلیمنٹ کے ا ن اراکین کو اجتہاد کا فریضہ سونپنا، ان کو تکلیف ما لا یطاق کا حامل بناناہے اور ایک اہم دینی فریضے کو نااہل لوگوں کے سپرد کرنا ہے۔‘‘ [1] ’خطباتِ اقبال‘ کا اسلوب ِبیان خطبات پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ ان کی زبان ایسی مشکل ہے کہ عوام تو کجا خواص بھی اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ماہنامہ’ ساحل‘ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’یہ بھی افسانہ ہے کہ خطبات نئی نسل کی سمجھ میں نہیں آتے۔ خود جاوید اقبال رحمہ اللہ نے زندہ رود میں لکھا ہے کہ اس کی زبان عسیرالفہم ہے اور بار بار تعاقب کے باوجود کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کئی مقامات پر انگریزی زبان میں استدلال ناقابل فہم ہے اور معانی صاف نہیں ہوتے۔ پروفیسر کرار حسین کا خیال ہے کہ بہت کم آدمیوں نے خطبات کو پڑھا ہوگا ۔ اس کتاب کو پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل ہے۔ کہیں کہیں تو اپنے آپ کو ہی سمجھانا پڑتا ہے کہ ہاں اب سمجھ گئے آگے چلو۔‘‘ [2] اس کاجواب یہ دیا گیا ہے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے خطبات عامۃ الناس کے لیے نہیں لکھے تھے بلکہ ان کے پیش نظر خواص کا طبقہ تھا۔اس کا جواب الجواب یہ دیا گیا ہے کہ عوام الناس نے تو خطبات پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی،خطبات کی تفہیم و تشریح کی طرف اگر کسی نے قدم اٹھایا ہے تو وہ خواص ہی کا حلقہ تھا اور خواص ہی نے خطبات کے عسیر الفہم ہونے کا شکوہ درج کروایا ہے۔ماہنامہ ’ساحل‘ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں: ’’ اس اعتراض کا عمومی جواب اقبال رحمہ اللہ کی زبان میں یہ دیا جاتا ہے کہ خطبات کے مخاطب عام لوگ نہیں طبقہ خواص ہے۔ دوسرے لفظوں میں علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے والی اشرافیہ جو ٹائی کوٹ پہننے اور فراٹے سے انگریزی بولنے کو علم کا آخری مرتبہ سمجھتی تھی۔ لیکن خطبات کے ادق عسیر الفہم مباحث اس طبقہ اشرافیہ کی ذہنی سطح سے بھی بہت بلند تھے۔ لہٰذا خطبات کا دائرہ نہایت محدود ہوگیا۔ اس سے نہ جدید ذہن استفادہ کرسکا اور قدیم ذہن تو ان کو سمجھنے کی استعداد، اہلیت، علمیت رکھتا ہی نہیں تھا، وہ نہ اسے رد کرسکتا تھا نہ قبول نہ اس پر نقد
[1] تقي عثماني، محمد، مفتي، الاجتهاد الجماعي، المؤتمر العالمي للفتوی وضوابطها: 17۔20؍1؍2009ء، رابطة العالم الإسلامي، المملکة العربیة السعودیة: ص10۔11 [2] علماء کے خوف سے خطبات کا اردو ترجمہ نہیں کیا گیا: ص35