کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 26
سے شائع کیا ہے۔اقبال اکیڈمی کے بعض مفکرین نے ان امالی کی جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی طرف نسبت کو مشکوک قرار دیا ہے لیکن ان کے پاس اپنے شک کے ثبوت میں کوئی واضح و صریح دلیل نہیں ہے۔علاوہ ازیں امالی کے بارے میں ان مفکرین کے بیانات بھی باہم متضاد ہیں۔ماہنامہ ساحل کے مقالہ نگار لکھتے ہیں:
’’ ڈاکٹر وحید عشرت انہیں احمدجاوید کے امالی قرار دیتے ہیں ۔ جاوید احمد انہیں غلام محمد کے امالی تسلیم کرتے ہیں۔ سہیل عمر کا پہلا موقف یہ تھا کہ مجھے اطمینان ہوا کہ میرے سوا اورلوگ بھی خطبات کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں ، حیر ت ہوئی کہ اس زمانے میں بھی لوگ اسی طرح سوچ سکتے تھے۔ اب ان کا موقف ہے کہ یہ امالی مرتب کی اختراع ہے۔‘‘ [1]
ان امالی کی نسبت اگر سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی طرف ثابت نہ بھی ہو سکے تو پھر بھی ان امالی میں خطبات پر کیے گئے نقد کی قدر و قیمت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اسلامی نظریاتی کونسل کے مجلہ سہ ماہی ’اجتہاد ‘ کے مدیر لکھتے ہیں:
’’اس سے قطع نظر کہ اس تحریر میں مذکور آراء سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی ہیں یا نہیں، یہ تحریر اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ اجتہاد میں مذکور مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے مراجع و مصادر پر بھی بہت قیمتی نقد موجود ہے۔‘‘ [2]
اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ : مختلف مکاتب فکر کے علماء کی نظر میں
معاصر دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے اہل علم نے اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے نقطہ نظر کی شد و مد سے مخالفت کی ہے۔ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ الله فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ پارلیمنٹ کو یہ حق دینا چاہتے ہیں، پچھلے دنوں علامہ اقبال رحمہ اللہ کے حوالے سے اس تجویز کو بڑا اچھالا گیا تھاکہ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کوحاصل ہونا چاہیے۔لیکن یہ ایک بالکل فضول تجویز ہے۔‘‘ [3]
اسی طرح جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی ،اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے بارے فرماتے ہیں:
’’ہمارے ہاں ایک اور غلط فکر جسے بعض مصنفین نے نمایاں کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کو تفویض کر دیا جائے۔اس فکر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ جس پر پارلیمنٹ کا اتفاق ہو جائے وہ کسی بھی جدید مسئلے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے اراکین کو عامۃ الناس اسی مقصد کے لیے منتخب کرتے ہیں۔یہ فکر ، معنی اجتہاد اور اس کے حقیقی مقتضیات سے جہالت یاتجاہل پر مبنی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اجتہاد محض عقلی رائے یا فیصلے کا نام نہیں ہے بلکہ اجتہاد سے مراد قرآن و سنت کی بنیاد پر شرعی حکم معلوم کرنے کی جدوجہد
[1] اداریہ ساحل، امالی غلام محمد : اقبال اکادمی کی نقد،(ماہنامہ) ساحل، کراچی،جلد اول، شمارہ نو، ستمبر2006ء، ص’ب‘
[2] خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ:ص53
[3] متین ہاشمی، محمد، سید، اجتہاد علماء کی نظر میں(سوالات و جوابات)، (سہ ماہی) منہاج ، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور،جلد1، شمارہ 1، جنوری 1983ء، ص287