کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 24
نقد کرتے تھے۔‘‘ [1]
سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ ، ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی کتاب کے عنوان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ان کے بقول یہ عنوان ہی سرے سے غلط تھا۔وہ لکھتے ہیں:
’’اقبال مرحوم نے خطبات کا نام"Re-Construction"رکھا، مجھے اس پر بھی اعتراض تھا، تعمیر نو یا تشکیل نو کا کیا مطلب؟ کیا عمارت منہدم ہو گئی۔تشکیل نو کا مطلب دین کی ازسر نو تعمیر کے سوا کیا ہے یعنی اسلام کی اصل شکل مسخ ہو گئی۔اب اسے از سر نو تعمیر کیا جائے۔ یہ دعوی پوری اسلامی تاریخ کو مسترد کرنے کے سوا کیا ہے؟ان امور میں اقبال مرحوم مغرب سے اس قدر متاثر ہیں کہ اسلامی دنیا کو تیزی سے روحانی طور پر مغرب کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔‘‘ [2]
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ‘ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی طرف سے پارلیمنٹ کے اجتہاد کو اجماع کے قائم مقام قرار دینے پر بھی سخت نقد کرتے ہیں اور اس کو اقبال رحمہ اللہ کی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ اجماع ِ جمہور کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی اصطلاحات کے مساوی قرار دینا علوم اسلامیہ کی تاریخ سے کامل ناواقفیت کا اظہار ہے۔یہ بھی خلط مبحث ہے، اسلام میں اجماع جہلاء کا نہیں ہے۔ اجماع، علماء کا معتبر ہے عوام کا نہیں۔ یہ علما کون لوگ ہوں گے، اس کے بھی اصول طے ہیں...اجماع کو لادینی سیاسی نظام کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال کی بہت بڑی غلطی تھی۔آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع کرتے۔‘‘ [3]
ایک اور مقام پرسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ، اقبال رحمہ اللہ کے اس نقطہ نظر کے تانے بانے کو مغربی فکر سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں:
’’مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے، جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر (ریفرنڈم وغیرہ) قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالباًَ اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا۔ فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں، اقبال مرحو م اس اصول سے تو آگاہ ہو ں گے لیکن اس کی تفہیم انہوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خود بخود پیدا ہو گئی اور اقبال مرحوم کے ہاں ایسی بے شمار گمراہیاں ملیں گی۔‘‘ [4]
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے ان امالی کی اشاعت پر ماہرین ِاقبالیات کی طرف سے اعتراض وارد کیا گیاہے کہ اگر
[1] خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ:ص58
[2] أیضاً: ص62
[3] أیضاً: ص60۔61
[4] أیضاً: ص57