کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 23
سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ کے بقول اقبال رحمہ اللہ نے اپنا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ، ترک پارلیمنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اگر ایسا کوئی مجتہد پیدا ہو جائے تو وہ ضرور اجتہاد کرے لیکن ترکی کے کمال مصطفی اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ، ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنااقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدین عصر پر لطیف طنز کیا ہے، جو علوم نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علمبردار بن گئے ہیں۔لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے کہ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے، عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علوم اسلامی میں رسوخ کے بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہو نے کی کوشش، جہاں سے وہ ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقہ کار بھی خود طے کر لیتے ہیں۔‘‘ [1] احمد جاوید صاحب مذکورہ بالا اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ریاستی سطح پر قانون سازی کا یہ عمل ظاہر ہے کچھ اداروں ہی کی طرف سے ہو گا۔اقبال کی نظر میں وہ ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ اب اگر پارلیمنٹ، علم، مزاج اور کردار کے دینی معیارات پر پوری نہیں اترتی، تو پارلیمنٹ کودرست کرنا چاہیے، اقبال رحمہ اللہ کی اس تجویز پر جرح کرنے سے کیا حاصل؟‘‘ [2] اقبال رحمہ اللہ کے خطبات کے مصادر و مراجع اور ان کی علمی منہج پر بھی سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ نے نقد کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں: ’’اقبال مرحوم کا فقہ اسلامی پر نقد مستشرقین (Orientalists)کے زیر اثربہت پیچیدہ اور گنجلک ہو جاتا ہے اور اکثر مقامات پر وہ انہی کی بات اپنے نام سے کرتے ہیں،ان کا یہ کہنا کہ مالکی شافعی فقہاء حقیقت پسند تھے، جب کہ حنفی فقہ تخیلاتی اور کلامی مباحث کامجموعہ ہے، نہایت غیر علمی اور نہایت سطحی بات ہے۔اصلاً وہ فقہ اسلامی کے قیمتی ذخیرے سے ناواقف تھے، ان پر ان کی گہری نظر نہ تھی، چند اہم مشہور کتابیں انہوں نے مترجم کے ذریعے پڑھ ڈالیں اور اس کمزور مطالعے کے بل پر لامحدود دعوے کر دیے، اس میں ان کا اخلاص موجود ہے لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہو سکتا...اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکراور گروہوں کے لوگوں سے خط و کتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کر کے اپنی ذہانت سے بعض غیر معمولی نتائج اخذ کر لیتے، ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کر سکتے، وہ علم کی بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر
[1] خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ: ص54 [2] أیضاً: ص67