کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 22
مرتبہ ماہنامہ ساحل نے جون 2006ء کے شمارے میں ’امالی ڈاکٹر غلام محمد‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔بعض ماہرین ِاقبال کا خیال ہے کہ ان’ امالی‘ کی سید صاحب کی طرف نسبت مشکوک ہے۔بہر حال یہ امالی سید صاحب کے ہوں یا نہ ہوں، امر واقعہ یہ ہے کہ اِنہوں نے ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے فکر و نظر کے تار و بود بکھیر دیے ہیں۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ قدیم علماء نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں، وہ اقبال مرحوم کو عصر حاضر کے کسی فرد میں نظر نہ آئیں، توانہوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا، جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکھٹی ہو سکتی ہیں، سو صفر اکھٹے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں، اسمبلیوں کے انتخابات کا تماشہ ہندوستان میں بہت دیکھا جا چکا، یہ اسمبلیاں کیسے اجتہاد کر سکتی ہیں؟ اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے، تمام انسان برابر ہیں، ایک زمانہ تھاجب ہند میں صرف ٹیکس دینے والے ووٹ دے سکتے تھے، وہ زمانہ بھی ختم ہو گیا، ہم پاکستان کی اسمبلی کو اجتہاد کے قابل نہیں سمجھتے، اس کے اراکین کا دینی علوم سے کیا تعلق۔ ایک آدھ استثناء چھوڑ دیجئے۔اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقال (سبزی فروش) کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں، اب بقال، حمال، حجام اور موچی اجتہاد کریں گے، اقبال مرحوم کا یہ نقطہ نظر ان کی سطحیت کو واضح کرتا ہے، اس سطحیت کا احساس انہیں آہستہ آہستہ ہوتاگیا،کیونکہ شروع میں خطبات پر علی گڑھ میں بہت داد ملی اور ہندوستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے، انہیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔‘‘ [1]
ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترکی میں مصطفی کمال پاشا ( متوفیٰ1930) کی اصلاحات سے بہت متاثر تھے اور اپنے مقالہ اجتہاد میں جابجا ان کی اجتہادی بصیرت کو داد دیتے نظر آتے ہیں۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’انتہاء یہ ہے کہ وہ ترکی کی اصلاحات کو بھی اجتہاد کے احیاء کی نئی شکلیں قرار دیتے ہیں اور ان شکلوں کی بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلامی ثقافت اپنی اصل میں حرکت پذیر ہے اور اس حرکت کے لیے قوت نمو اسے خارج سے نہیں داخل سے فراہم ہوتی ہے، آج اقبال مرحوم زندہ ہوتے تو اپنے ان مفروضوں کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے، ان کی نظر سے کمال اتاترک کے کمالات نہیں گزرے، جب وہ آسمان کی طرف مُکا اٹھا کر اللہ کو دکھاتا ہے۔ اگر اسلام ایسے اجتہاد کے لیے آیا تھا تو پھر اسلام کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ [2]
[1] خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ: ص55
[2] أيضاً: ص55