کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 21
معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے۔ اُن کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جو اُن کے علم وفن اور پیغام کی عظمت سے میل نہیں کھاتے او ر جنھیں دُور کرنے کا موقع انھیں نہیں ملا۔ ان کے مدراس کے خطبات میں بہت سے ایسے خیالات و افکار بھی ہیں جن کی تعبیر وتوجیہہ اور اہلِ سُنّت کے اجتماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی ...یہ لیکچر شائع نہ ہوئے ہوتے تو اچھاتھا۔‘‘ [1]
ڈاکٹر محمد خالد مسعود کے بقول بھی علامہ اقبال رحمہ اللہ کے نقطہ نظر ’اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ‘ کو علماء میں قبول عام حاصل نہ ہو سکا اور علماء نے عموماً پارلیمنٹ کی بجائے غیر سرکاری اداروں اور انجمنوں کے ذریعے ہی اجتماعی اجتہاد کے عمل کو آگے بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ڈاکٹر خالد مسعود لکھتے ہیں:
’’ اجماع اور اجتہاد کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ایک طرح سے دو اجتہادات پیش کیے تھے۔ایک تو اجتہاد کے انفرادی کے بجائے اجتماعی عمل کا تصور، دوسرے قانون ساز اسمبلیوں سے اجماع اور اجتہاد یا اجتماعی اجتہاد کے اداروں کا کام لینے کی تجویز۔ان میں پہلی بات تو علماء میں خاصی مقبول ہوئی اور بہت سے علما ء کے ہاں اس کی تائید ملتی ہے۔اگرچہ اس میں براہ راست اقبال رحمہ اللہ کے حوالے سے بات نہیں کی گئی، تاہم پاکستان سے مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ (متوفی ٰ 1977ء)اور بھارت سے مولانا تقی امینی نے بہت زور کے ساتھ انفرادی کی بجائے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا ہے۔دوسرے ممالک میں بھی اس خیال کو حمایت حاصل ہوئی۔چناچہ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 1974ء)(الاجتہاد فی الفقہ الإسلامی)،مصطفی احمد زرقاء رحمہ اللہ (متوفیٰ1999ء)(الاجتہاد ومجال التشریع فی الإسلام) اور شیخ عبد القادر المغربی رحمہ اللہ (متوفی ٰ1956ء)نے (البینات)میں بہت زور دیا۔البتہ اجتماعی اجتہاد کی شکلیں کیا ہوں گی،اس پر علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خیال کو قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔اکثر علماء نے جن میں أبو زہرہ اورمصطفی زرقاء رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، علماء کی خصوصی مجالس اور تحقیقاتی اداروں کی تشکیل کی تجاویز دی ہیں، لیکن یہ اختیارات قانون ساز اسمبلیوں کودینے کی تائید علماء کی جانب سے ابھی تک نہیں ہوئی۔‘‘ [2]
خطبہ اجتہاد اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تنقید
ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے استاذ جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ان کے خطبہ اجتہاد پر بہت کڑی تنقید کی ہے۔سید صاحب نے اپنی زندگی میں ہی ڈاکٹر غلام محمد صاحب کو اقبال رحمہ اللہ کے خطبات کے حوالے سے کچھ تنقیدی تحریریں املاء کروائیں تھیں۔سید صاحب کی یہ تحریریں ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکیں بلکہ اس تنقید کو پہلی
[1] جاوید اقبال، جسٹس، علماء کے خوف سے خطبات کا اردو ترجمہ نہیں کیا گیا، (ماہنامہ) ساحل، کراچی،ج1، شمارہ 10،اکتوبر2006ء، ص39
[2] غلام محمد، ڈاکٹر (امالی)، خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ،(سہ ماہی) اجتہاد،اسلامی نظریاتی کونسل،اسلام آباد، جلد1، شمارہ1، جون 2007ء، ص45۔46