کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 20
اقبال رحمہ اللہ کے استاذ جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1953ء)کو خطبات کی اشاعت پسند نہ تھی۔ جسٹس جاوید اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سلیمان ندوی رحمہ اللہ کو خطبات کی اشاعت پسند نہ تھی۔علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے کہا کہ اس کتاب کو شائع نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔‘‘ [1] ماہرین ِاقبالیات اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ سید صاحب کو ’خطبات‘ کی اشاعت ناپسند تھی۔مولاناابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1999ء)کے بیان کے مطابق بھی سید صاحب نے ’خطبات ‘ کی اشاعت کو ناپسند فرمایا تھا۔مولاناأبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان کے مدراس کے خطبات جو انگریزی میں"Reconstruction of Religions Thought in Islam "کے نام سے شائع ہوئے اور ان کا اردو اور عربی میں ترجمہ بھی ہوا ہے، بہت سے ایسے خیالات و افکار ملتے ہیں جن کی تاویل، توجیہہ اور اہلِ سنت کے اجماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے یہی احساس، استاذِ محترم مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا تھا، ان کی تمنا تھی یہ لیکچر شائع نہ ہوئے ہوتے تو اچھا تھا۔‘‘ [2] مولانا علی میاں رحمہ اللہ (متوفیٰ 1999ء)کی اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد ظفر اقبال لکھتے ہیں: ’’مولانا سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی اپنی کسی تحریر کے سوا مذکورہ بیان سے زیادہ اور کوئی محکم ذریعہ نہیں ہے، جس سے مولانا سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی رائے کا علم ہوسکے، اب دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو اسے تسلیم کرلیا جائے یا مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی طرف کذب وخیانت کی نسبت کی جائے۔‘‘[3] مولانا أبوا لحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے خیال میں اقبال کے خطبات میں پیش کردہ بعض نظریات امت مسلمہ کے اجماعی عقائد سے متضاد ومتصادم ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ’’میں اقبال کو کوئی معصوم و مقدس ہستی اور کوئی دینی پیشوا اور امامِ مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ ہی ان کے کلام سے استناد اور مدح سَرائی میں حَد افراط کو پہنچا ہوا ہوں ،جیسا کہ ان کے غالی معتقدین کا شیوہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکیم سنائی، عطار اور عارف رُومی ،آدابِ شریعت کے پاس اور لحاظ، ظاہر و باطن کی یک رنگی اور دعوت و عمل کی ہم آہنگی میں ان سے بہت آگے ہیں۔اقبال رحمہ اللہ کے ہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں، جِن سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ میں بعض پُر جوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو اُن سے بہترکسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم و حقائق تک ان کے سِوا کوئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تویہ ہے کہ اپنے مقتدر
[1] اقبال نے خطبہ اجتہاد کی اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا تھا: ص39 [2] ظفر اقبال، محمد، ساحل کے مباحث پر نقد، ( ماہنامہ) ساحل، کراچی،جلد 1، شمارہ 11، نومبر2006ء، ص 84 [3] أیضاً