کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 19
رہا۔ماہنامہ ساحل کے مقالہ نگار لکھتے ہیں:
’’جامعہ ام القریٰ سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’’ محمد إقبال وموقفه من الحضارة الغربیة… الدکتور خلیل الرحمان‘‘ 1988ء میں شائع ہوا جس کی بنیاد پر عرب علماء نے اقبال کے کفر کے فتوے دیے اور جاوید اقبال رحمہ اللہ کے بقول سعودی عرب میں ایک کانفرنس بھی علماء کی منعقد ہوئی۔‘‘ [1]
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ پر کفر کا فتویٰ لگانا تو کسی طور درست نہیں تھا لیکن برصغیر پاک و ہند کے جلیل القدر علماء نے خطباتِ اقبال کو اسلام کے بنیادی اور اتفاقی نظریات سے متصادم قرار دیااور ان کی اشاعت ناپسندفرمایا۔سلیم احمد صاحب لکھتے ہیں:
’’اقبال سے جن لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان میں مولانا اکبر الہ آبادی (متوفیٰ1938ء)، سید سلیمان ندوی(متوفیٰ1953ء)، مولانا عبدالماجد دریا بادی(متوفیٰ1977ء)، خواجہ حسن نظامی( 1955ء) اور مولانا مودودی (متوفیٰ1979ء) رحمہم اللہ جیسی جید شخصیتیں شامل ہیں۔ اختلافات کا یہ سلسلہ اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اخبار ’جسارت‘ کی رپورٹ کے مطابق مکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگراساتذہ نے اقبال پر الحاد و زندقہ کے الزام لگائے ہیں اور سفارش کی ہے کہ اقبال کے خطبات کو نوجوانوں تک پہنچنے سے روکا جائے کیونکہ اس سے نئی نسل کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ رپورٹ ’جسارت‘ میں ’پرستارانِ اقبال کے لیے ایک لمحہ فکریہ‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ خود اقبال کا حال یہ تھا کہ بقول نذیر نیازی جیسے اقبالی کے، جب انھوں نے اقبال سے خطبات کے بعض مقامات کی وضاحت چاہی تو علامہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے کہ بعض اوقات میری کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ مجھے خود بھی نہیں معلوم ہوتا کہ میں کیا کہہ گیا ہوں۔ شاعری میں خدا کو بخیلی کا طعنہ دینا، ہرجائی کہنا، نیاز مند اور گرفتار آرزو کہنا یہ سب تو شاعرانہ باتیں تسلیم کی جاسکتی ہیں لیکن نثر میں مجذوب بن جانے کا کیا جواز ہے؟‘‘ [2]
جسٹس جاوید اقبال رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق خطبات کے اردو ترجمہ کی اشاعت میں تاخیر کی وجہ ہی یہی تھی کہ اقبال رحمہ اللہ کو پہلے سے ہی یہ اندیشہ تھا کہ ان خطبات کی اشاعت پر علماء کے حلقے کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔جسٹس جاوید اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور تیسری بات یہ ہے کہ اس کتاب سے علماء بہت ناراض تھے بلکہ اس کا اردو ترجمہ کرنے میں بھی اگر تساہل ہوا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اگر اس کا اردو ترجمہ ہوا تو ممکن ہے علامہ اقبال پر علماء اعتراض کریں جیسے کہ یہ اکبر کی طرح کا کوئی دین ِ الہٰی یاکوئی نیا مذہب یا مذہب کی کوئی نئی تاویل پیش کرنے کی کوشش ہو۔ چنانچہ اس پر اعتراضات بھی ہوئے۔‘‘ [3]
[1] اقبال نے خطبہ اجتہاد کی اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا تھا: ص 12
[2] أیضاً:ص10
[3] أیضاً:ص37