کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 18
’’جدیدیت پسند طبقات کے لیے خطبات ’جدیدیت کی انجیل‘ کا درجہ رکھتے تھے، لہٰذا خطبات میں حضرت اقبال رحمہ اللہ کے طالب علمانہ موقف سے اسلام، سنت ،امت ،علماء اور اجماع کو رد کرنے کے لیے موشگافیاں ڈھونڈی گئیں۔ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ جو تمام زندگی خودکو دین کا طالب علم لکھتے سمجھتے رہے اور آخر تک علماء کرام سے مستقل اور مسلسل استفادہ فرماتے رہے، انھیں جدیدیت پسند حلقوں نے دین کے بہت بڑے عالم کے روپ میں پیش کرنا شروع کیا تاکہ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ کی عظیم الشان اور نادر الوجود شخصیت کے سحر سے اسلامی عقائد، عبادات، تاریخ اور امت کے اجماع کو تہس نہس کیا جاسکے۔ جدیدیت پسندوں کے پاس پوری اسلامی تاریخ سے جدیدیت پسندی کے حق میں دو چار دلائل اگر مل سکتے ہیں تو وہ معتزلہ کے افکار ونظریات ہیں یا خطبات اقبال کی عبارتیں۔ مغرب کے الحاد اور مغرب کی الحادی سائنس و ٹیکنالوجی کے جواز میں ان دو اہم حوالوں کے سوا جدیدیت پسندوں کے پاس اپنے حق میں کہنے کے لیے کچھ نہیں۔‘‘ [1]
علامہ اقبال رحمہ اللہ کے تصورِ اجتہاد کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ آج کے دور میں عورتوں کو بھی مردوں کے برابر وراثت میں حصہ ملنا چاہیےجبکہ قرآن مجید کی قطعی نصوص اس کے خلاف ہیں۔
’خطبات ِاقبال‘ علماء کی نظر میں
اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خطبات میں بالعموم اور خطبہ اجتہاد میں بالخصوص چند ایک ایسے افکار موجود ہیں جو کتاب و سنت کی قطعی نصوص اور امت مسلمہ کے متفق علیہ عقائد سے متصادم ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان خطبات کو پیش کرنے کے ساتھ ہی علامہ اقبال رحمہ اللہ پرعلماء کی جانب سے استفسارات، اعتراضات، اشکالات اور فتاوی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے بعض خطوط سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقالے کے پڑھے جانے پر ان پر کفر کا فتوی بھی لگایا گیا تھا جو کہ بہت ہی افسوس ناک معاملہ ہے۔جسٹس جاوید اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس سلسلے میں سب سے قوی شہادت تو خود علامہ اقبال رحمہ اللہ کا خط ہے جوانھوں نے مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1938ء) کو لکھا۔کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک انگریزی مضمون لکھا تھا جو یہاں ایک جلسے میں پڑھا گیا،انشاء اللہ شائع بھی ہوگا۔مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر کہا۔بہر حال اس تمام معاملے کے متعلق مفصل گفتگو ہوگی جب آپ لاہور تشریف لائیں گے.... ‘‘ [2]
علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خطبات میں پیش کردہ افکار پر ان کی تکفیر کا معاملہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری
[1] أمالی ڈاکٹر غلام محمد: چند استفسارات :ص3
[2] اقبال نے خطبہ اجتہاد کی اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا تھا:ص55