کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 17
activity of the Mejliss. This, in my opinion, dangerrous arrangement is probably necessary in view of the Persian constitutional theory...But whatever may be the persian constitutional, the arrangement is not free from danger, and may be tried' if at all, only as a temporary measure in Sunni countries. The Ulema should form a vital part of a Muslim legislative assembly helping and guiding free discussion on questions relating to law. The only effective remedy for the possibilities of erroneous interpretations is to reform the present system of legal education in Muhammadan countries, to extend its sphere, and to combine it with an intelligent study of modren jurisprudence ’’. [1]
’’لیکن ابھی ایک اور سوال ہے جو اس سلسلے میں کیاجا سکتا ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی اس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں۔لہٰذا اس کا طریق کار کیا ہو گاکیونکہ اس قسم کی مجالس، شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیاہو گی؟1906ء کے ایرانی دستور میں تو اس امر کی گنجائش رکھ لی گئی ہے کہ جہاں تک امور دینی کا تعلق ہے ، ایسے علماء کی جو معاملات دنیوی سے بھی خوب واقف ہیں ایک الگ مجلس قائم کر دی جائے تا کہ وہ مجلس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔یہ چیز بجائے خود بڑی خطرناک ہے، لیکن ایرانی نظریہ دستور کا تقاضاکچھ ایسا ہی تھا...بہر حال ایرانی نظریہ دستور کچھ بھی ہو یہ انتظام بڑا خطرناک ہے، اور سنی ممالک اسے اختیار بھی کریں تو عارضی طور پر۔انہیں چاہیے مجالس قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کرلیں لیکن علماء بھی ہر امر قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہار رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔‘‘ [2]
’خطباتِ اقبال‘ اور جدیدیت
بعض علمی حلقوں کا خیال ہے کہ مسلمان ممالک میں جدیدیت کی تحریک نے علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خطبات کو ایک انجیل کا درجہ دے دیا ہے،حالانکہ اس کی علمی حیثیت ایک مذہبی نقطہ نظر سے زیادہ نہیں تھی۔ماہنامہ ساحل کے مقالہ نگار لکھتے ہیں:
[1] The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam: pp. 139-140
[2] تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ: ص251