کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 16
اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیش نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدر و قیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔بلاد اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون سازمجالس کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی زا قدم ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاہب اربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔مزید بر آں غیر علماء بھی جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو جو ہمارے نظامات فقہ میں خوابیدہ ہے، از سر نو بیدار کر سکتے ہیں۔یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہو گا۔ہندوستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیونکہ ایک غیر مسلم مجلس کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو۔‘‘ [1] علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اجماع کی جو تعبیر بیان کی ہے وہ درست نہیں ہے۔ اجماع ، مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عالمی جمہوری نظام میں انتخاب کے طریقے سے مجتہدین پارلیمنٹ میں نہیں آتے بلکہ سیاستدان آتے ہیں اورپاکستان سمیت اکثر و بیشتر ممالک میں پارلیمنٹ یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے کوئی دینی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے اس نظریے پریہ سوال وارد ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک میں اجتہاد کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیاجائے تو پارلیمنٹ میں عوام الناس کے جو نمائندہ ہوتے ہیں وہ اجتہادی صلاحیت تو کجا، دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے خود بھی اس سوال کی نزاکت کو محسوس کر لیا تھا۔انہوں نے اپنے خطبے میں اس سوال کو اٹھایا تو ہے لیکن اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔وہ فرماتے ہیں: ‘‘ One more question may be asked as to the legislative activity of a modern Muslim assembly which must consist, at least for the present' mostly of men possessing no knowledge of the subtleties of Muhammadan Law. Such an assembly may make grave mistakes in their interpretaion of law. How can we exclude or at least reduce the possibilities of erroneous interpretation? The persian constitution of 1906 provided a separate ecclesiastical committee of Ulema- conversant with the affairs of the world - having power to supervise the legislative
[1] تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ:ص248۔249