کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 125
اعلان کیا گیا کہ اکیسویں صدی میں خواتین کو مردوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔[1] انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جو نظام یا ازم نفرت کی بنیاد پر جڑ پکڑتا ہے تو تعمیری اسلوب کی بجائے تخریب پسند ہو جاتا ہے، وہ کئی پہلوؤں سے حق پر ہوتے ہوئے بھی انتہاء پسندی اور تشدد کے باعث ناحق اور ناجائز قرار پاتا ہے۔یہی معاملہ تحریکِ نسواں کے ساتھ بھی نظر آتا ہے کہ جب اس کی قائدین مردوں سے نفرت میں اتنی آگے نکل گئیں کہ قوانینِ فطرت سے بھی انکار کر دیا گیا تو وہی نتیجہ سامنے آیا جو متوقع تھا۔
علاوہ ازیں زیرِ مطالعہ کتاب تحریکِ نسواں کے بنیادی خدوخال جاننے کے لئے ایک بہترین کتاب ہے۔ کیونکہ اس میں تحریک کی ابتداء سے لے کر درپیش مشکلات، اہم سنگِ میل، عورتوں خصوصاً سیاہ فام خواتین کے مسائل ، عصری نسوانی رحجانا ت، سفید فام خواتین کی قیادت پر عدم اعتماد سمیت بعض اُمور پر نقد بھی کیا گیا ہے لہٰذا عصرِ حاضر میں تحریکِ نسواں کے بارے میں بنیادی اور عصری معلومات کے حصول کے لئے ہکس کی مذکورہ کتاب نمایاں مقام رکھتی ہے۔پس یہ حقوقِ نسواں کے موضوع پر لکھی گئی جدید کتب میں سے ایک ہے۔ پھر اس کا صفِ اوّل کی کتاب شمار کئے جانا اس امر کی طرف دلیل کرتا ہے کہ مصنفہ کے خیالات سے آبادی کا ایک بڑا حصہ متفق ومتاثر ہے اور اس کی حمایت میں ہے۔
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، بیل ہکس نے اپنی کتاب میں بنیادی طور پر یہ تصور دیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی تحریکِ نسواں کا حصہ بننا چاہئے۔ دیکھا جائے تو یہ مطالبہ ہی تحریک کی بساط کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے اور آزادی نسواں کے عَلم برداروں کی طرف سے ایک طرح کا اظہارِ شکست ہے کیونکہ وہ انسانوں کی جس نوع سے صدیوں تک نفرت کا اظہار کرتی رہیں ،اُن کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے تحریک کا خون گرمائے رکھا ،آج انہیں سے مدد کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یہ قدرت کے سامنےشکست کو تسلیم کرنا نہیں تو اور کیا ہے!
چونکہ مغرب کے پاس مذہب جیسا کوئی لائحہ عمل ہی نہ تھا کہ جس کی ہدایات پر چلتے ہوئے وہ مساوات کے ساتھ ساتھ فطری تقاضے بھی پورے کر پاتے۔ لہٰذا انہوں نے مساوات مرد وزن میں تمام حدود پار کر دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت اور مرد انسانی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی اور آخرت میں اجر و سزا کے اعتبار سے برابر ہیں۔ اگر عورت جسمانی و ذہنی اعتبار سے معاشی تمدن میں حصہ دار بننے کے اعتبار سے مرد سے کم ہے تو انسان سازی میں حصہ ڈالنے کے اعتبار سے مرد سے بالا ہے۔عورت کو کلی طور پر کم تر اور حقیر جگہ دینا کسی طور مناسب نہیں، نہ ہی خواتین کو ایسا سوچنا چاہئے اور نہ ہی مرد حضرات کو۔معاشرے میں عورتوں کو جائز مقام نہ دینے کے رویے نے عورت کے دل میں احساسِ کمتری کو اور مرد کے دل میں احساسِ برتری کو جگہ دی ہے ان منفی رویوں کا سدِ باب اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کرنے سے ہی ممکن ہے۔
[1] David Bouchier, The Feminist Challenge, (London: Macmillan Press, 1983), Pg. 27