کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 124
معنوں میں تبھی خوشی محسوس کرتی ہے جب وہ اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے اور انہیں پروان چڑھتا ہوا دیکھتی ہے۔
منفی رحجانات کی تبلیغ
مصنفہ بیل ہکس نے اپنی کتاب میں بعض ایسے رحجانا ت کی تبلیغ و توثیق کی ہے جو کہ نہ صرف اسلام بلکہ مغربی نقطہ نظر سے بھی قابلِ قبول نہیں ہیں مثلاً عائلی زندگی کی نفی، رہبانیت کا پرچار، ہم جنس پرستی کا دفاع، سقوطِ حمل کی حوصلہ افزائی وغیرہ وہ اُمور ہیں جو اہلِ مغرب کے قدامت پسند طبقات میں بھی ناپسندیدہ ہیں ۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ مصنفہ نے یہ تمام تصورات مردوں کی جانب جذبہ نفرت سے مغلوب ہو کر دئیے ہیں جس کی اصل وجہ بھی یورپی مردوں کا خواتین سے نامناسب رویہ تھا لیکن ایک ایسی مصنفہ کے لئے ہرگز موزوں نہیں کہ معاشرے میں اینٹ کا جواب پتھر سے اور برائی کا جواب گناہ سےدینے کا رحجان پیدا کرے خصوصاً تب جبکہ اسے معلوم ہو کہ اس کی تحاریر کو عوام الناس اور خاص طور پر نوجوان خواتین میں ذوق وشوق سے پڑھا اور نقل کیا جاتا ہے۔
جدید اسالیبِ تحقیق سے عدم مطابقت
مصنفہ نے اپنی کتاب میں جدید اسالیبِ تحقیق کی قطعاً پیروی نہیں کی اور پوری کتاب میں کہیں بھی فٹ نوٹ، حوالہ جات یا حواشی کا نام و نشان تک نہیں کہ جس سے مخصوص شعبے میں قدم رکھنے والے نئے افراد اس غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ بیل ہکس جو فرما رہی ہیں ،صد فی صد درست اور حقائق پر مبنی ہے کیونکہ موصوفہ نے اپنے اندازِ تخاطب سے یہی تاثر دیا ہے ۔لیکن کتاب میں جا بجا ایسے مقامات بھی ہیں جہاں حوالہ جات کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے مثلاً تحریک نسواں کی ابتداء سے متعلق حقائق کے بیان میں یہ بات ظاہر ہے کہ یہ اُمور مصنفہ کی ذاتی تحقیق و تجربات پر مبنی نہیں ۔نیز متعدد مقامات پر اگرچہ مسئلہ تو بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا کوئی قابلِ عمل حل تجویز نہیں کیا گیا کہ جس سے یہ تاثر مزید قوی ہوتا ہے کہ کتاب کو مناسب تحقیق، تسوید و تبیض سے قبل ہی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
خلاصۂ بحث
گذشتہ تین صدیوں کے دوران یورپ میں سر اٹھانے والی بیشتر فکری تحاریک مثلاً سیکولر ازم، سوشل ازم، فاشزم اور پھر تحریکِ نسواں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان تحریکوں کی بنیاد نفرت کے جذبات پر رکھی گئی۔مغربی خواتین میں مردوں کے خلاف نفرت کا اظہار ان کے تاریخی ظلم و ستم کے خلاف شدید ردِعمل تھا جو بتدریج" Radical Feminists "کی صورت میں سامنے آیا جو خواتین کا ایسا گروہ تھا جو مردوں کی تحقیر کو اپنا ایمان سمجھتا تھا۔ پھر 1990ء کے عشرے میں انہی خواتین کی جانب سے ایسا لٹریچر پیش کیا گیا کہ جس میں یہ