کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 122
٭ "Patriarchy"سے مرد حضرات کون کون سے فوائد حاصل کرتے ہیں؟
٭ انہیں خواتین پر برتری کی ضرورت کیوں ہے؟
٭ وہ کس طرح عورتوں کا استحصال کرتے ہیں؟ وغیرہ
اگرچہ کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیرِ تجزیہ تحریر معاشروں کے ان تسلیم شدہ مشاہدات پر مبنی ہے کہ جن میں قرارِ واقعی صنفِ نازک کا استحصال کیا جاتا ہے لیکن اس اَمر کو عمومی جہت دینا اور اس کی بنیاد پر بلند و بانگ دعوے کرنا ناقابلِ فہم ہے۔
بیانات میں وسیع تضاد
ہکس کی زیرِ تحقیق کتاب میں بعض مقامات پر وسیع تضاد نظر آتا ہے جو کہ مصنفہ کی ذہنی کشمکش اور بے یقینی کی کیفیت کا عکاس ہے مثلاً موصوفہ لکھتی ہیں:
‘‘There was indeed a great deal of anti-male sentiment among early feminist activists who were responding to male domination with anger.’’ [1]
لیکن پھر فرماتی ہیں:
‘‘Conservative mass media constantly represented feminist women as man-haters.’’ [2]
تحریک نسواں کی حامی ہونے کے باوجود اس خیال کی تشہیر کرنا کہ تحریکِ نسواں اپنی ابتداء میں مردوں سے شدید نفرت رکھتی تھی اور پھر اس نفرت کے حالیہ وجود کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ غلط فہمی قدامت پسند ذرائع ابلاغ کی وجہ سے پائی جاتی ہے، دراصل اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں کہ مصنفہ کی تحریر دراصل مفروضات اور ذاتی قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
اسی طرح مصنفہ کسی مقام پر ایک دعویٰ کرتی ہیں اور پھر چند سطور بعد یا فوراً ہی اس کی تردید بھی کر دیتی ہیں۔ مثلاً کتاب کی ابتداء میں عمومی انداز میں تحریر کرتی ہیں کہ مرد حضرات"patriarchal "نظام سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں[3] لیکن پھر لکھتی ہیں کہ جو مرد امیر یا طاقت ور نہیں ہوتے، وہ اس نظام سے فائدہ نہیں اُٹھاتے:
‘‘Most men in this nation feel troubled about the nature of their identity. Even though they cling to patriarchy they are beginning to intuit that it is part of the problem…it has made it
[1] Bell Hooks, Feminism if for Everybody: Passionate Politics: Pg. 2
[2] Ibid: Pg 67-68
[3] Ibid: Pg ix