کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 12
بولنا، بات کرنااورگفتگو کرنا ہے۔تیرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ذمہ دار افراد کی باہمی باقاعدہ گفتگو پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا تھا۔[1] آج کل اس لفظ کا استعمال عموماًکسی خطہ ارضی میں قائم ایک ایسی مجلس یا ہیئت کے لیے ہوتا ہے جو عوام الناس کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہواور ریاست کے مسائل سے بحث کرتی ہو۔بعض ممالک میں اس کو نیشنل اسمبلی(National Assembly) یا سینٹ(Senate) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ (متوفی ٰ 1938ء) بر صغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم ایک مسلمان مفکر اور فلسفی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اقبال رحمہ اللہ ایک بہت بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ان کے افکار و نظریات ان کی شاعری اور نثر دونوں اسالیب میں موجود ہیں۔ ان کی شاعری نے عامۃ الناس کو ایمان و یقین کے حقیقی جذبے سے سرشار کیا،مایوسی کو ختم کیااور امت کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کی تحریک آزادی میں روح پھونک دی تھی۔سید خالد جامعی حفظہ اللہ ، ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں:
’’ واقعہ یہ ہے کہ ’’اقبال کی شاعری محض شاعری نہیں صُور اسرافیل اور نغمہ جبرئیل ہے۔ یہ شاعری اذان کی طرح مشرق و مغرب کی وادیوں میں، گونج رہی ہے۔ اس شاعری نے دلوں میں ایک ایسی آگ لگا دی ہے جو آج بھی بجھنے نہیں پاتی۔ اقبال کی شاعری مشرق ومغرب کی تمام اہم زبانوں کے سرچشموں سے صہبا کشید کرتے ہوئے لفظوں کا گلزار اور خوابوں کا چمن زار سجا دیتی ہے۔ ان کی شاعری کا آبگینہ قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جگمگاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے فلک سے ستارے اتار کر شعروں کی قباء میں ٹانک دیے ہیں اور لفظوں میں سیماب کی تڑپ بھردی ہے۔‘‘ [2]
کئی ایک مفکرین اور علما، اقبال کی شاعری کو الہامی شاعری کا درجہ دیتے ہیں۔ خالد جامعی حفظہ اللہ شاعر اقبال رحمہ اللہ کو ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا مرثیہ خواں اور امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا حدی خواں قرار دیتے ہیں۔ جامعی صاحب اقبال کی شاعری کی ہمہ جہتی صفات اور متنوع انوارات کابڑی جامعیت کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال ملت ِاسلامیہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں اور اس کے احیاء و نشاۃ ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں ہیں، مگر ان کی مرثیہ خوانی اضمحلال اور شکست کے بجائے حوصلہ، ولولہ، طنطنہ، شوکت اور جلال تخلیق کرتی ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر ایمان کی تجدید ہوتی ہے، دل شوقِ سفر پاتا ہے اور نگاہ ذوق ِنظر حاصل کرتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا مرکزومحور قرآن کریم ہے جس نے انسانوں کے اس عظیم الشان قافلے کو جنم دیا جو ازل سے ابد تک کے سب سے بڑے انسان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں کھجور کی چٹائیوں پر سوتا تھا، اینٹوں کے تکیے بناتا اور فرش
[1] Ellen Goodman, The Origins of the Western Legal Tradition: From Thales to the Tudors, The Federation Press, Sydney, 1995, p. 268
[2] خالد جامعی، سید، أمالی ڈاکٹر غلام محمد: چند استفسارات،(ماہنامہ) ساحل، ستمبر2006ء، کراچی، جلد 1، شمارہ 9، ص1۔2