کتاب: رُشدشمارہ 04 - صفحہ 10
نگار کا کہنا یہ ہے کہ معاصر درایتی فکر میں صحیح سند سے ثابت شدہ روایات یہاں تک کہ صحیحین کی روایات تک خلاف قرآن اور خلاف عقل ہونے کی وجہ سے مردود قرار پاتی ہیں لیکن ان کے خلاف قرآن ہونے سے مراد، روایت کا اسکالر کے فہم قرآن کے خلاف ہونا ہوتا ہے اور ان کے خلاف عقل سے مراد، تمام انسانوں کی عقل نہیں بلکہ اسکالر کی اپنی عقل کے خلاف ہونا ہوتا ہے لہٰذا اَمر واقعی یہی ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث کہ جسے محدثین نے صحیح قرار دیا ہو، کبھی بھی قرآن مجید یا عقل کے خلاف نہیں ہوتی ہے البتہ بعض ناقدین کو وہ خلاف قرآن یا خلاف عقل محسوس ہو سکتی ہے۔
چوتھا مقالہ ’’فقہاء اور ائمہ محدثین کا تصور اجماع: ایک تقابلی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ متقدمین اہل علم کے نزدیک الفاظ کی نسبت تصورات اور معانی کی زیادہ اہمیت تھی لہٰذا وہ کسی بھی تصور دین کی وضاحت میں اس کے لغوی معنی میں، عرفی معنی کو شامل کر کے اس کی وضاحت کر دیتے تھے لیکن متاخرین کا منہج یہ ہے کہ وہ منطق کے استعمال کے زیر اثر ہر مصطلح کی فنی تعریف کو جامع ومانع بنانے کے لیے شروط وقیود کے بیان میں پڑ جاتے ہیں اور پھر اس مصطلح کی درجن بھر تعریفات تیار کر کے ان میں سے ہر ایک پر اعتراضات کی ایک لمبی چوڑی فہرست بھی قائم کر دیتے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کا اجماع کا تصور یہ ہے کہ صحابہ کے زمانے سے اہل مدینہ کا جو عرف منقول چلا آ رہا ہے، وہ روایت ہونے کی وجہ سے حجت ہے جبکہ اہل مدینہ کے اجتہاد واستنباط کو امام مالک رحمہ اللہ اجماع کا درجہ نہیں دیتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اجماع ضروریات دین میں ہوتا ہے نہ کہ فروعات میں۔ اور امام صاحب کے نزدیک اجماعی مسائل سے مراد وہ مسائل ہیں کہ جن میں کسی عالم دین کا اختلاف کرنا ممکن نہ ہو جیسا کہ پانچ وقت کی نمازیں اور رمضان کے روزے وغیرہ۔ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ کے نزدیک اجماع سے مراد اہل حق علماء کی جماعت کی معروف رائے ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اجماع سے مراد منہج استدلال اور طریق استنباط میں اہل حق علماء کی عرفی رائے ہے۔
پانچواں مقالہ امریکی سیاہ فام مصنفہ اور سماجی کارکن بیل ہکس کی معروف کتاب "Feminism is for Everybody: Passionate Politics" کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ ہکس کی مذکورہ کتاب بنیادی طور پر ان مشکلات کے بیان پر مبنی ہے جن کا سامنا تحریک برائے حقوقِ نسواں، اس سے وابستہ خواتین، اور خصوصاً سیاہ فام خواتین کو کرنا پڑا۔ ہکس کی کتاب اپنے موضوع پر صف اول کی بہترین کتب میں شمار ہوتی ہے اور تحریک نسواں کے بنیادی خدوخال جاننے کے لیے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب پر تبصرہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک نسواں کی تحریک کا آغاز تو عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے ہوا تھا لیکن اب وہ مردوں سے نفرت کے اظہار کی ایک تحریک بن چکی ہے جو کہ ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے۔
والسلام
مدير مجلہ
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر