کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 50
سعید بن جبیر رحمہ اللہ (متوفیٰ 95ھ)سے نقل فرماتے ہیں کہ ’’ ان سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے حدیث سے بتایا، سائل نے کہا کہ یہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے۔ تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مخالفت کیلئے تشریف لائے تھے۔‘‘ [1] اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفیٰ597 ھ) فرماتے ہیں: ’’ولا یعرف ذلك إلا النقاد.‘‘ [2] ’’اس کی معرفت نقد حدیث کے ماہر ہی کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1332 ھ)بھی لکھتے ہیں کہ حدیث میں ٹکراؤ ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فن حدیث کی گہری آشنائی حاصل ہوجائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ولیس له دواء إلا إتقان هذا الفن والرسوخ فیه‘‘[3] ’’اس کا علاج اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ فنی مہارت اور علمی رسوخ حاصل ہو۔‘‘ اِستدراکات ِصحابہ اورشبہات کا جائزہ بعض حضرات اس بات پر زور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عقل عام اور قرآن کریم کو حدیث کے رد وقبول کا معیار بنا رکھا تھا۔ اپنے دعوی کی تصدیق کے لیے یہ حضرات چند امثلہ بھی بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے حوالے سے یہ مثالیں پیش کی گئی ہیں، ان میں حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت عمرفاروق، حضرت ابن عباس، حضرت ابوایوب انصاری اور امیر معاویہ وغیرہ کو نمایاں طور پر ذکر کیا جاتاہے اور ان کی نسبت سے مخالف قرآن یادرایت کے منافی حدیث کو رد کردینے کے معیار کو ثابت کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے خیال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے یہ رائے رکھنا قطعی طور درست نہیں ہے کہ یہ اصول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیش نظر تھے۔لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہی صحابہ کے اِستدراکات کو ہم بطور مثال اس میں پیش کر دیں تاکہ اس بارے میں در آنے والی ان تمام غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ کردیا جائے
[1] الدارمي، أبو محمد عبد اللّٰه بن عبد الرحمن بن الفضل، سنن الدارمی، تحقيق: حسين سليم أسد الداراني: 1/475، دار المغني، المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى، 1412 ھ - 2000 م [2] ابن الجوزی، أبي الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد، کتاب الموضوعات من الأحادیث المرفوعات، تحقیق، الدکتور نور الدین بن شکری: 1/141، مکتبة أضواء السلف، الریاض، 1997م [3] القاسمي، محمد جمال الدين، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث:1/163، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1979م