کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 32
حقیقت بالکل واضح ہے کہ بینک اور اس کا گاہک پہلے دن سے ہی اس گاڑ ی کی آپس میں خرید و فروخت چاہتے ہیں اور وہ خرید وفروخت ان کے درمیان طے بھی ہے لیکن اس بیع کواجارے کی شکل دینے کے لیے یہ ساراچکر چلایا گیا ہے تا کہ بینک اپنا سود کرایے کے نام پر وصول کر سکے اور کسٹمر کرایے کے نام پر سہولت کے ساتھ اس گاڑی کی قیمت ادا کر سکے۔ پانچواں اعتراض: بینک گاڑی خرید لیتا ہے اور اسکا مالک بن جاتا ہے۔ لہٰذا وہ گاڑی کی ملکی (ownership)کے اخراجات(expenses) اٹھانے کا پابند ہوتا ہے ۔بینک گاڑی سے متعلقہ یہ اخراجات اٹھا تو لیتا ہے لیکن وہ اپنے کسٹمر سے یہی اخراجات کرایے کی مد میں وصول کر لیتا ہے۔مثلاً بینک گاڑی کا ایک عمومی کرایہ ہر ماہ کے حساب سے30ہزار رکھتا ہے لیکن وہ پہلے ماہ گاڑی کاکرایہ 60 ہزار وصول کرتا ہے تاکہ گاڑی کی ملکیت حاصل کرنے میں اسے جو اخراجات برداشت کرنے پڑے ہیں وہ ان کو اپنے کسٹمر سے وصول کر لے ۔پس ایک ماہ گاڑی کا کرایہ 60 ہزار ہوتا ہے تو دوسرےماہ 30 ہزار، یہ کیسا کرایہ ہے جو ایک ماہ کے محدود وقفے میں اس قدر اوپر نیچے ہوتا ہے ۔ مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب لکھتے ہیں: ’’کار اجارہ سکیم میں میزان بینک کی جاری کردہ کرایہ کی عبوری تشخیص میں درج ہے کہ پہلے ماہ کا کرایہ رجسٹریشن اور باربرداری کے اخراجات کو بھی شامل ہے اور باقی مہینوں کے کرائے انشورنس (یا تکافل) کی رقم کو بھی شامل ہیں۔‘‘ [1] چھٹا اعتراض: بینک جب گاڑی خرید کر کسی شخص کو اجارے پردیتا ہے تو اسے اس گاڑی کی انشورنس (insurance) کروانی پڑتی ہے جو کہ تمام علما کے نزدیک ناجائز ہے ۔اس اعتراض کا عموماً اسلامی بینک یہ جواب دیتے ہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان() ان کو کار فنانسنگ (car financing)کی اجازت اسوقت تک نہیں دیتا ہے جب تک وہ اس کی انشورنس نہ کروا لیں۔لہذا وہ گاڑی کی انشورنس کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اسلامی بینک تجارت کا ایک ایسا ذریعہ کیوں اختیار کرتا ہے کہ جس کے لیے اسے ایک ناجائز کام کرنا پڑتا ہے ۔ اسلامی بینکوں نے انشورنس کے مسئلے کا اب یہ حل نکالا ہے کہ تکافل(Takaful) کے نام پر اسلامی انشورنس(islamic insurance)کو متعارف کروایا ہے۔اس تکافل کو حقیقی اسلامی انشورنس کا نام دینا خود محل نظر ہے ۔ [2]
[1] ذوالفقار علی ،حافظ ، بیع سلم کے اصول اور اسلامی بینک،ماہنامہ محدث، لاہور، ستمبر 2008ء، جلد 40، شمارہ 9، ص31 [2] عبد الواحد، مفتی ڈاکٹر، جدید معاشی مسائل اور حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کے دلائل کاجائزہ : ص92۔132،مجلس نشریات اسلام، کراچی، 2008ء