کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 31
تیسرا اعتراض: ایک شخص نے بینک سے گاڑی کرائے پر لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو بینک وہ گاڑی بک(book) کروا دیتا ہے اور اس گاڑی کے حصول میں بینک کو اگر 6 ماہ لگ جاتے ہیں تو بینک ان 4ماہ کی ایک مناسب وقت قیمت(opportunity cost) اپنے کسٹمر(customer) سے وصول کر لیتا ہے اور اس کی وصولی کی شکل یہ ہوتی ہے کہ بینک ان 4 ماہ کے مناسب وقت قیمت کو گاڑی کے کرایے(rent) میں شامل کر کے اس کاکرایہ بڑھا دے گا اور جس قدر گاڑی بینک کو دیر سے حاصل ہو گی مثلاً 6 ماہ بعد ملے گی توبینک گاڑی کے کرایے میں بھی اسی قدرا ضافہ کر دے گا ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بینک گاڑی کے کرایے کے تعین کے لیے اس وقفے کو بھی ملحوظ رکھتا ہے جو کہ کسی نئی گاڑی کے حصول میں درکار ہوتا ہے او ر بینک اپنے کرایے کاحساب کتاب(calculation) اس دن سے شروع کرتا ہے جس دن سے وہ اپنی رقم فراہم(invest) کرتاہے ۔ [1]
چوتھا اعتراض: اگر کوئی شخص بینک سے کوئی گاڑی اجارہ (leasing)پر لیتا ہے مثلاً پانچ سال کے لیے ایک ٹویوٹا کرولا کرایے پر لیتا ہے ۔تین سال کا کرایہ ادا کرنے کے بعدوہ شخص بینک سے وہ گاڑی خریدنا چاہتا ہے تو بینک کویہ چاہیے تھا کہ وہ اس گاڑی کی مارکیٹ ویلیو(market value) لگواتا اور اپنے کسٹمر کو وہ گاڑی فروخت کر دیتا لیکن وہ ایسے نہیں کرتا بلکہ بینک یہ دیکھتا ہے کہ اس نے وہ گاڑی کتنے میں خریدی تھی مثلاً بینک نے وہ گاڑی20 لاکھ میں خریدی تھی۔اب بینک یہ دیکھے گا کہ اس گاڑی کی بنیادی قیمت(principal amount) کا کتنے فی صد کرایے کی مد میں تین سالوں میں بینک کو واپس ملا ہے مثلاً تین سال میں بینک کو گاڑی کی اصل رقم کا 60 فی صد واپس ہوا ہے یعنی بینک کو اصل رقم کا12 لاکھ واپس ملا ہے اور8 لاکھ باقی ہے‘ یہ واضح رہے کہ ان تین سالوں میں بینک کو کل رقم صرف12لاکھ ادا نہیں ہوئی بلکہ12لاکھ سے زاید رقم ادا کی گئی ہے جن میں12لاکھ کو بینک نے اصل رقم کی واپسی میں شمار کیا ہے اور اس سے زائد کو گاڑی کے کرایے میں شمار کرتے ہوئے اپنا منافع وصول کیا ہوتا ہے۔
اب بینک ان 8 لاکھ پر پانچ سالہ اجارہ کا معاہدہ ختم کرنے کاپانچ فی صد(termination penalty)جرمانہ لگا کر یہ گاڑی اس شخص کو بیچ دے گا اور اسلامی بینک کا اپنے کسی کسٹمر کو گاڑی بیچنے کا یہ طریقہ بعینہ سودی بینکوں کے طریق کار کے مطابق ہے ۔ لہٰذا بینک،پانچ سالہ اجارہ (leasing)کے دوران کسی بھی مرحلے پر اپنے کسٹمر کو گاڑی بیچنے کے لیے بنیادی رقم(principal amount) اور باقی رہنے والی قیمت(remaining amount) کو سامنے رکھ کر گاڑی فروخت کرتا ہے ۔اگر یہ واقعتاً اجارہ تھا اور گاہک(cutomer)بینک کو کرایہ ہی ادا کر رہا تھا تو اجارے کے کسی مرحلے پر گاڑی خریدتے وقت گاڑی کے کرایے کی مدمیں بنیادی رقم کی ادائیگی کا لحاظ کیوں رکھا گیا اور گاڑی کی مارکیٹ ویلیو کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟
[1] ذوالفقار علی،حافظ ، دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم : ص 115،149،ابوہریرہ اکیڈمی، لاہور، 2008ء