کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 28
مثلاً بینک سے ایک شخص نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس نے ٹویوٹا کرولا(Toyota corolla)خریدنی ہے۔ اب بینک اس شخص کو ایجنٹ بنا کر کہے گا کہ اپنی پسند کی ٹویوٹا کرولا خرید لو۔ وہ شخص مثال کے طور پر20 لاکھ میں وہ گاڑی بینک کے لیے خریدتا ہے تو بینک وہی گاڑی اس شخص کو ایک متعین مدت مثلاً پانچ سال کے لیے کرایے پر دے دیتا ہے اور پانچ سال بعد وہ شخص بینک سے وہی گاڑی ایک معمولی رقم کے عوض خرید لیتا ہے ۔
اجارہ و اقتناع پر کیے جانے والے اعتراضات
بینک کے اس کاروبار پر درج ذیل اعتراضات عائد ہوتے ہیں:
پہلا اعتراض: بینک جب کسی شخص کے مطالبے پر ایک گاڑی خریدتا ہے مثلاًوہ 20لاکھ کی ایک ٹویوٹا کرولا خریدتا ہے تو بینک اس20لاکھ کی گاڑی کی اصل قیمت، اصل قیمت کا سود جسے وہ منافع کا نام دیتا ہے اور گاڑی کی انشورنس کا خرچہ وغیرہ ملا کر اس کا حساب کرتا ہے مثلاً یہ 25 لاکھ بنتا ہے ۔اب بینک اس25لاکھ کو پا نچ سال میں تقسیم کر کے اس کی قسطیں بنا دے گا اور اسی شخص کوکہ جس کے کہنے پر بینک نے وہ گاڑی خریدی تھی، وہ گاڑی پانچ سال کے دورانیے کے لیے کرائے پر دے دے گا اور گاڑی کا کرایہ مارکیٹ ریٹ کی بجائے اس شرح سے وصول کرے گا کہ بینک کو پانچ سال میں وہ 25 لاکھ کرائے کی صورت میں واپس مل جائے ۔ اس طرح کرائے کے حیلے سے بینک اس شخص سے پانچ سال میں25 لاکھ وصول کر لے گا کہ جس میں گاڑی کی اصل قیمت کے ساتھ انشورنس کا خرچہ اور بینک کا سود یعنی منافع بھی شامل ہو گا۔پانچ سال کے بعد بینک وہی گاڑی اس شخص کو مارکیٹ ریٹ کی بجائے سیکورٹی کی ایک معمولی سی رقم کے عوض بیچ دے گا۔اس طرح کرائے سے شروع ہونے والے اس تعلق کا نتیجہ بیع کی صورت میں نکلتا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ بینک اور اس کے کسٹمر (customer)میں پہلے دن سے ہی یہ بات طے ہوتی ہے کہ پانچ سال کا کرایہ وصول کرنے کے بعد بینک اس شخص کو وہ گاڑی ایک معمولی قیمت پر بیچ دے گا۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بینک نے وہ گاڑی زید کو بیچنے کے لیے نہیں خریدی تھی اور جس قیمت پر گاڑی بینک نے خریدی تھی،اس سے زائدرقم وصول کرنے کے لیے اس نے زید کے ساتھ کرائے کا چکر چلایا، جس میں زید کے لیے آسانی تو یہ تھی کہ وہ کرائے کے نام پر قسطوں میں بینک کو اس کی ساری رقم بمع منافع لوٹا سکتا تھا جبکہ بینک کو یہ فائدہ تھا کہ اس نے سود کو کرائے کا نام دے دیا۔اگر تو جو بینک وصول کرتا ہے وہ واقعتاً گاڑی کا کرایہ ہے تو کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونا چاہیے تھا ۔اگر یہ کرایہ ہی تھا تو بینک کو پانچ سال بعد اسی شخص سے گاڑی بیچنے کا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔اگر یہ کرایہ ہی ہے تو بینک کو پانچ سال بعد وہ گاڑی اس شخص کو ایک معمولی قیمت کی بجائے مارکیٹ ریٹ پر بیچنی چاہیےتھی۔اگر وہ کرایہ ہی ہے تو بینک کو اس کرایے کا تعین گاڑی انشورنس، اس کی اصل رقم اور سودی بینکوں کی شر ح سود (kibor)کو سامنے رکھ کرنہیں کرنا چاہیے تھا۔