کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 27
نے ان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق بیچنے یا بازار سے اٹھ جانے کا حکم دیا ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مَرَّ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ وَهُوَ يَبِيعُ زَبِيبًا لَهُ بِالسُّوقِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تُرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا. [1] ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گزر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے ہوا جبکہ وہ بازار میں اپنی کشمش بیچ رہے تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا یا تم اپنی قیمت بڑھا لو یا پھر ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰه، سَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ ((إِنَّ اللّٰه هُوَ المُسَعِّرُ، القَابِضُ، البَاسِطُ، الرَّزَّاقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ)) [2] ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اشیاء کی قیمتیں بہت چڑھ گئیں تو بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ہمارے لیے قیمتیں یعنی مارکیٹ ریٹ مقرر کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ہی قیمتیں بڑھانے والا ہے ۔وہی رزق تنگ کرنے والا ‘ رزق کشادہ کرنے والا اور بہت زیادہ رزق دینے والا ہے،میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کروں کہ تم میں سے کوئی ایک بھی (یعنی خریدار اور دکاندار) مجھ سے کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو جو کہ اس کے خون یا مال میں ہوا ہو۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مارکیٹ ریٹ کو مقرر کرنے کا اختیار حکومت وقت کے پاس بھی نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِلَّا اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾[3] ’’سوائے اس کے کوئی تجارت باہمی رضامندی سے ہو۔‘‘ لیکن جب لوگوں کی آزاد مرضی کی تجارت سے ایک مارکیٹ ریٹ طے ہو جائے تو پھر اس کی مخالفت بہت سے معاشرتی و معاشی مفاسد کو جنم دیتی ہے ۔پس اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مارکیٹ ریٹ کے خلاف بیچنے پر حضرت حاطب کو بازار سے اٹھ جانے کا حکم دیا تھا۔ اجارہ و اقتناع(Lease purchase scheme) کاروبار کی اس صورت میں بینک کے پاس ایک شخص جاتا ہے اور بینک کو بتلاتا ہے کہ میں نے فلاں گاڑی یا مشینری خریدنی ہے لیکن میرے پاس رقم نہیں ہے ۔بینک اس شخص کو اپنا ایجنٹ بنا لیتا ہے اور وہ چیز خرید لیتا ہے۔
[1] مالك بن أنس إمام، الموطأ، کتاب البیوع، باب الحکرة والتربص: 2399، دار القلم، دمشق، 1413ھ [2] جامع الترمذی، کتاب البیوع عن رسول الله، باب ما جاء في التسعیر: 1314 [3] سورة النساء : 3: 29