کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 26
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ہاؤس فنانسنگ کے جواز کا سیدھا سادھا طریقہ یہ ہے کہ بینک اور زید نے مل کر مکان بنایا ہے جس میں بینک نے چالیس لاکھ لگائے ہیں اور زید نے دس لاکھ ڈالے ہیں۔مکان کی تعمیر کے بعد بینک اور زید دونوں اس مکان کو کسی تیسرے شخص کو کرایے پر دے دیں ۔مثلاً تیسرا شخص اس مکان کا پچیس ہزار کرایہ دیتا ہے تو اب اس مکان کا بیس ہزار کرایہ بینک لے لے اور پانچ ہزار زید کو مل جائے گا۔اس کے علاوہ زید بینک کو اس کی رقم آسان قسطوں میں واپس بھی کرتا رہے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ ہاؤس فنانسنگ کی سکیموں میں اسلامی بینکوں نے ’کتاب الحیل ‘ کاسہارا لے کر سود کو کرایے کا نام دے دیا ہے جو کسی بھی صاحب شعور سے مخفی نہیں ہے۔اگر وہ کرایہ ہے تو وہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہوتا یا اس سے کچھ اوپر نیچے ہوتا۔اگر وہ کرایہ ہے تو اس کرایے کا تعین کرتے وقت بینک مکان کی تعمیر کے مہینوں کو بھی اس کرایے میں شامل نہ کرتا۔اگر وہ کرایہ ہے تو بینک اس کرایے کا تعین سودی بینکوں کی شرح سود کو سامنے رکھتے ہوئے نہ کرتا۔اس کے لیے عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ شریعت میں کسی چیز کو کرایہ پر دینے یا فروخت کرنے کے لیے کوئی شرح متعین نہیں ہے لہٰذا بینک کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس شرح سے چاہے ‘ اپنے حصہ دار(partner)سے کرایہ وصول کرے۔
کرایے کے اس فرق کو بیان کرنے سے مقصود یہ نہیں ہے کہ بینک کا کرایہ عام کرایے سے بہت زیادہ ہوتا ہے، بلکہ یہ بعض صورتوں میں عام کرایے سے کم بھی ہو سکتا ہے۔مقصودکلام یہ ہے کہ یہ درحقیقت کرایہ نہیں ہے بلکہ اس کو صرف کاغذوں میں کرایے کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ ایک تھانے کو کاغذوںمیں ہسپتال لکھ دیا جائے تووہ ہسپتال نہیں بن جاتا ہے کیونکہ دونوں کا ڈھانچہ ، بنیادی ضروریات اور ماحول بہت مختلف ہوتا ہے۔گھر کا کرایہ عموماً اس کی لوکیشن(location)،اس کے ڈھانچے (structure) اس کی قیمت اور اس کے رقبے وغیرہ سے طے ہوتا ہے ۔مثلاً ایک گھر ڈیفنس میں ہے جو ایک کنال کا ہے اور ایک گھر رائے ونڈ روڈ پر ہے اور وہ بھی ایک کنال کا ہے تو دونوں کے کرایے میں واضح فرق ہوگا۔اسی طرح ڈیفنس میں ہی پانچ مرلے اور ایک کنال کے گھر کے کرایہ کا فرق نمایاں ہو گا۔ شاہدرہ میں ایک ہی گلی میں ایک ایک کنال کے دو گھر ہیں جن میں ایک کی قیمت فروخت دس لاکھ ہے جبکہ دوسرے کی پچاس لاکھ ہے تو دونوں کے کرایہ میں نمایاں فرق ہو گا۔گلبرگ میں پانچ پانچ مرلے کے دو مکان ہیں ایک کارنر پلاٹ ہے جبکہ دوسرا ایک ایسی گلی میں ہے کہ جس کا سیورج سسٹم (sewerage system) خراب ہونے کی وجہ سے گلی میں ہر وقت بدبو پھیلی رہتی ہے، تو دونوں کے کرایے میں بہت فرق ہو گا۔لہٰذ ا ایک مکان کے کرایے کے تعین میں جن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری امر ہے اور ان کا لحاظ رکھے بغیر کرایہ عرف میں طے ہی نہ کیا جاتاہو، تو ان امور کو ملحوظ رکھے بغیر سودی شرح پر کرایے کا تعین کرنے سے وہ کرایہ نہیں بن جاتا ہے،چاہے وہ عام کرایے سے کتنا ہی کم بھی کیوں نہ ہو۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے جب انگور بیچتے وقت مارکیٹ ریٹ کو مد نظر نہ رکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ