کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 25
بینک کرایہ بھی کم وصول کرے گا۔سود(intrest) کو کاغذوں میں کرایہ(rent) لکھ دینے سے وہ کرایہ نہیں بن جاتا ہے۔کرایہ تو اس صورت میں آپ اس کو کہیں جبکہ اس مکان کا کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونہ کہ بینکوں کی شرح سود پر اس کرایے کا تعین (calculation)کیا گیا ہو۔
تیسرا اعتراض: بینک اپنے پارٹنر (partner)سے40 لاکھ وصول کرنے کے لیے اس کے چھوٹے چھوٹے یونٹس بنا لیتا ہے۔ مثلاً 40لاکھ کی وصولی اگر بینک نے پانچ سالوں میں کرنی ہے تو وہ 40 لاکھ کو پانچ سالوں میں اس طرح تقسیم کر دے گا کہ اس کی وصولی قسطوں کی صورت میں بینک کو پانچ سال میں مکمل ہو جائے۔ اگر کوئی شخص بینک سے کسی موقع پر ایک سے زائد یونٹس خریدنا چاہتا ہے یا آسان الفاظ میں بینک کو ایک سے زائد اقساط ادا کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کو ان اقساط کے مجموعے کاتین3 فی صدزائد ادا کرنا ہو گاجوکہ صریحاً سود ہے ۔
بینک ایک شخص سے چالیس لاکھ پانچ سالوں میں وصول کرنے کے لیے اس کی قسطیں بنا دیتا ہے، مثلاً یہ طے پاتا ہے کہ زید بینک کو پہلے تین ماہ میں دو لاکھ واپس کر ے گا اور زیدتین ماہ میں بینک کودو لاکھ کی رقم واپس نہیں کر سکا توبینک کو اس صورت میں بھی کوئی نقصان اس لیے نہیں ہے کہ زید کے ذمے زیادہ رقم واجب الاداء ہے جس کی وجہ سے زید مکان کا کرایہ بھی زیادہ ادا کر رہا ہے ۔
چوتھا اعتراض: بینک جب کسی شخص کے ساتھ مل کر ایک مکان بنانا شروع کرتا ہے تو اس مکان کی تعمیر سے پہلے ہی بینک اس شخص سے یہ معاہدہ کر لیتا ہے کہ مکان کی تعمیر کے بعد وہ شخص بینک سے وہ مکان کرائے پر لے گا اور کرایہ بھی بینک اسی وقت متعین کر دیتاہے ۔ایک ایسا مکان جس کا وجود ہی نہیں ہے، اس کا کرایہ کیسے متعین کیا جاسکتا ہے ؟اور وہ کرایہ بھی سودی بینکوں کی شرح سود کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق۔
پانچواں اعتراض: اسی طرح ہو م فنانسنگ میں انشورنس یا تکافل(اسلامی انشورنس) کروانی پڑتی ہے جو ناجائز ہے ۔مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب لکھتے ہیں:
’’اسلام کی روسے انشورنس یقیناً ناجائز ہے اور اس میں سود‘ جوئے اور غرر کے معنیٰ پائے جاتے ہیں ۔یہی تینوں باتیں تکافل یعنی اسلامی انشورنس میں بھی پائی جاتی ہیں ۔جیسا کہ تکافل کے موضوع پر ہم مستقل لکھ چکے ہیں۔لہٰذا مروجہ تکافل بھی غیر اسلامی طریقہ کار ہے ۔ بینک اپنے ہی نام انشورنس کراتا ہے اور گھر میں بینک اور گاہک خود اپنے اپنے حصوں کے بقدر کراتے ہیں۔اس میں مندرجہ ذیل باتیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں: ۱۔گاہک جو کار لیزنگ یا ہوم فنانسنگ کرواتا ہے وہ بینک کے انشورنس یا تکافل میں مبتلا ہونے کا ایک سبب بنتا ہے اور اس کو علم ہے کہ بینک ایسا ضرور کرے گا اور محض اس کی وجہ سے کرے گا تو اس بنا پر وہ بھی گناہ گار ہوتا ہے۔‘‘ [1]
[1] مروجہ اسلامی بینکاری کی چند خرابیاں: ص31