کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 24
کرنے میں شرح سود کو معیار بنانے اور اس کو ذکر کرنے میں اسلام کے غیر سودی نظام سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔‘‘ [1] مثال کے طور پر زید کے مکان کی تعمیر ایک سال میں ہوئی کہ جس میں 40لاکھ بینک نے فراہم کیا تھا اور دس لاکھ زید کا تھا۔اب مکان کی تعمیر کے دوران کے ایک سال کا بینک اگر کرایہ وصول کرتا ہے جبکہ مکان ابھی تک بنا ہی نہیں ہے اور زید نے مکان کو استعمال بھی نہیں کیا تو درحقیقت یہ کرایہ نہیں ہے بلکہ بینک زید سے مشارکت (partnership)کے نام پر اپنی فراہم کردہ رقم پر سود (intrest)وصول کر رہا ہے۔ یہ بات بہت واضح تھی کہ بینک زید سے مکان کی تعمیر کے دوران کرایہ وصول نہیں کر سکتا،لہٰذا یہاں اس نے ایک حیلہ کیا اور وہ یہ کہ زید سے مکان کی تعمیر کے دوران کرایہ تو نہ لیا لیکن اس کو سودی بینکوں کی شرح سود کے مطابق حساب(calculate) کر کے اپنے کاغذوں میں لکھ لیا اور مکان کی تعمیر کے بعدزیدسے وصول ہونے والے کرایے میں اس کرایے کو بھی شامل(adjust)کر دیا ، جس کی وجہ سے مکان کا کرایہ مارکیٹ ریٹ سے بہت مختلف ہو گیا۔مثال کے طور پر ایک ہی علاقے مثلا ًڈیفنس(defense)میں ایک ہی جیسی قیمت کے ایک ایک کنال کے 50گھر ہیں۔ اب49 گھروں کے کرایہ کا انداز توایک جیسا ہو گا لیکن بینک کے ذریعے اس علاقے میں جو پچاسواں گھر بنایا گیاہے اور بینک اس کا کرایہ جب وصول کرے گا تو وہ ان49 گھروں کے کرایے سے بہت فرق ہو گا۔کرایے کے اس فرق کو بیان کرنے سے مقصود یہ نہیں ہے کہ بینک کا کرایہ عام کرایے سے بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ یہ بعض صورتوں میں عام کرایے سے بہت زیادہ کم بھی ہو سکتا ہے ۔اس بحث سے اصل مقصود یہ ہے کہ بینک کے کرایہ کا معیار مارکیٹ نہیں بلکہ() ہوتا ہے۔ ایک اور بات جواس شبہے کو مزید قوی کر دیتی ہے،یہ ہے کہ بینک جب بھی کسی ایسے مکان کے کرایے کا تعین کرتا ہے تو وہ اپنی کل لاگت(investment)کو سامنے رکھتا ہے مثلاً وہ چالیس لاکھ ہے تو بینک سودی بینکوں کی شرح سود(intrest rate) کو سامنے رکھتے ہوئے اس چالیس لاکھ کی رقم کا تیر ہ یا چودہ فی صد سود نکالے گا اور پھراس سود کو کرایے کا نام دے کر اپنے مشارک(partner)سے وصول کر لے گا۔ مثلاً بینک کا کسی شخص سے پانچ سال کا معاہدہ ہوا ہے کہ وہ شخص پانچ سال میں بینک کی 80 فی صد رقم مثلاً 40 لاکھ اس کو واپس لوٹا دے گا۔اب بینک اپنے40 لاکھ کو کئی ایک یونٹس(units) میں تقسیم کرے گا اور اپنی 40 لاکھ کی اصل رقم اس شخص سے پانچ سال میں قسطوں کی شکل میں واپس لے گا۔اس کے ساتھ ساتھ40 لاکھ کا 13یا14فی صد سود بینک کرایے کے نام سے وصول کرے گا اور جیسے جیسے قسطوں کی ادائیگی سے بینک کی اصل رقم کم ہوتی جائے گی مثلا ًوہ 30 لاکھ یا20 لاکھ ہو جاتی ہے تو اس کا13یا14 فی صد سود بھی کم ہو گا لہٰذا
[1] عبد الواحد، مفتی ،ڈاکٹر، مروجہ اسلامی بینکاری کی چند خرابیاں،ماہنامہ محدث، لاہور ، ستمبر 2008ء، جلد 40، شمارہ 9، ص29