کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 22
موجود ہے۔ اس میں یہ کہا گیا کہ مروجہ اسلامی بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے ۔اسلام کی طرف منسوب بینکوں کا بھی وہی حکم ہے جو دیگر سودی بینکوں کا ہے۔اس اجلاس میں جامعہ اشرفیہ لاہور سے حضرت مفتی حمید اللہ جان صاحب، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے حضرت مولانا مفتی عبد المجید دین پوری صاحب،حضرت مولانا مفتی رفیق احمد صاحب اورحضرت مولانا مفتی شعیب عالم صاحب، جامعہ فاروقیہ سے حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب، مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل صاحب، حضرت مولانا مفتی سمیع اللہ صاحب، حضرت مولانا مفتی احمد خان صاحب،جامعہ اسلامیہ کلفٹن سے حضرت مفتی حبیب اللہ شیخ صاحب، خیر المدارس ملتان سے مفتی مولانا عبد اللہ صاحب،دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے حضرت مفتی غلام قادر صاحب،جامعہ خلفائے راشدین کراچی سے حضرت مفتی احمد ممتاز صاحب،جامعہ أحسن العلوم کراچی سے حضرت مفتی زر ولی خان صاحب، جامعہ رشیدیہ بلوچستان سے حضرت مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی صاحب وغیرہ نے شرکت کی ہے ۔ اس اصولی وضاحت کے بعدذیل میں ہم اسلامی بینکوں کے کاروبار کی معروف و رائج شکلوں کا کسی قدر تفصیلی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ مشارکۃ متناقص(Deminishing Musrakah) کاروبار کی اس صورت میں ایک شخص مثلا ًزید، اسلامی بینک کے پاس جاتا ہے اور بینک سے کہتا ہے کہ مجھے ایک مکان چاہیے اور میرے پاس اس مکان کے بنانے یا خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔اسلامی بینک زید سے کہتا ہے کہ تم میرے ساتھ مل کر کوئی مکان بنا لو یا خرید لو۔ فرض کریں اب بینک اور زید مل کر ایک مشترکہ مکان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔بینک یہ ذمہ داری اٹھاتا ہے کہ وہ اس مکان کا 80 فی صد خرچہ اٹھائے گا جبکہ زید اس میں 20 فی صد رقم لگاتا ہے ۔مکان بنوانے کے لیے ساری بھاگ دوڑ زید کو کرنی پڑتی ہے زید ہی مکان اپنی نگرانی میں بنواتا ہے کیونکہ اسی نے اس میں رہنا ہے ۔بینک زید کو مکان کی صرف 80 فی صد رقم مہیا کرتا ہے اور مکان بنوانے میں عملاً شریک نہیں ہوتا۔مکان بننے کے بعد جب زید اس مکا ن میں رہائش پذیر ہوتا ہے تو بینک زید سے کہتا ہے کہ مجھے اس مکان کے 80 فی صد حصے کا کرایہ ادا کرو،کیونکہ تم اس مکان کو استعمال بھی کر رہے ہو۔زید بینک کو اس کے حصے کے مطابق کا کرایہ ادا کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مکان میں بینک کا حصہ بھی اس سے قسطوں پر خریدتا رہتا ہے۔زید کی طرف سے قسطوں کی ا دائیگی کے ساتھ مکان میں بینک کا حصہ کم ہوتا جاتا ہے اور اسی حساب سے بینک کا کرایہ بھی کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالآخر زید بینک سے آہستہ آہستہ اس کا تمام حصہ خرید لیتا ہے ۔اس صورت میں زید مکان کی قسط الگ اور کرایہ الگ طور پر ادا کر رہا ہوتاہے۔