کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 20
خریدو۔ [1]یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بوڑھے بیمار شخص پر زنا کی حد جاری کرنے کے لیے یہ حکم دینا کہ اس کو سو کوڑوں کی بجائے سو شاخوں والی کھجور کی ایک ٹہنی مار دو ۔ [2] ایسی تمام مثالوں کا جواب یہ ہے کہ اگر تو اپنے حق کو حاصل کرنے یا کسی ظلم کو رفع کرنے کے لیے یا کسی شخص سے ایسی تکلیف دور کرنے کے لیے ہو جو تکلیف ما لا یطاق میں داخل ہو، حیلہ کیا جائے تو یہ ایک جائز حیلہ ہے بشرطیکہ اس حیلے کے لیے جائز ذریعہ یاوسیلہ استعمال کیاجائے اور بعض علما مثلا ًامام شاطبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 590ھ) وغیرہ تو اسے حیلے کی تعریف میں بھی داخل نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک حیلہ وہی ہے جو ناجائز اور غیر شرعی حیلہ ہو۔ اس کے برعکس بعض علما مثلا امام ابن القیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751)وغیرہ نے حیلے کی دو قسمیں بیان کی ہیں ایک جائز اور شرعی حیلہ ہے اور دوسرا ناجائز اور غیر شرعی حیلہ ۔ [3] حضرت ایوب نے ایک دفعہ اپنی بیوی کی ناشکری پر یہ قسم اٹھائی کہ صحت مند ہونے کے بعد تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔حضرت ایوب کی بیوی کا جرم ایسا نہ تھا کہ ان پر سو کوڑوں کی سزا جاری کی جاتی لیکن حضرت ایوب کو اپنی قسم کا بھی لحاظ تھا لہٰذا حضرت ایوب کی بیوی کو ایک ایسی سزا سے بچانے کے لیے کہ جس کی وہ سزاوار نہ تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک حیلہ سجھا دیا۔لہٰذا ایسا حیلہ جو دفع ضرر کے لیے ہو جائز حیلہ ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف کا اپنے بھائی کو اپنے پاس روکنا، ان کا ایک شرعی و اخلاقی حق تھا۔ علاوہ ازیں وہ اپنے بھائی بنیامین کو سوتیلے بھائیوں کے مزید ظلم سے بچانا چاہتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَالَ اِنِّيْ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾[4] ’’انہوں نے کہا کہ میں آپ کا بھائی ہوں ۔ پس آپ غم نہ کریں اس پر جو کہ وہ کرتے تھے‘‘ علاوہ ازیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے اور بیمار شخص پر سو کوڑوں کی حد اس لیے جاری نہ فرمائی کہ اس کے جاری کرنے سے اس کے مرنے کا امکان غالب تھا، پس اسے تکلیف ما لا یطاق سے بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حیلہ اختیارفرمایا۔ حضرت بلال والی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ذاتی ضرورت پوری کرنے کے لیے ، ایک جائز ذریعے اور وسیلے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی ہے یعنی بیع کے عام مروج طریقے کے ذریعے پہلے اپنی ردی کھجور بیچو اور پھرعمدہ کھجور حاصل کرو۔یہاں ردی کھجور کے بدلے عمدہ کھجور کے حصول کے لیے
[1] صحيح البخاري، کتاب الوکالة، باب إذا باع الوکیل شیئا فاسدا فبیعه مردود: 2312 [2] أبوداؤد سلیمان بن أشعث السجستاني، سنن أبي داؤد، کتاب الحدود، باب إقامة الحد على المریض: 4479، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م [3] جامع الأصول : ص 423۔425 [4] سورة یوسف : 12 : 69