کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 19
ورزی ہو۔‘‘ [1]
متقدمین کا حیلوں کے بارے میں موقف یہی تھا لیکن متأخرین نے حیلوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا۔راقم الحروف، لاہور کے ایک جامعہ میں طالب علم تھا تو ایک دفعہ ایک دوست نے حج کے ایک مسئلے کے بارے دریافت فرمایا کہ اس کا شرعی حکم جامعہ کے دار الافتاء سے پوچھ کر آنا ہے۔مسئلہ یہ تھا کہ کسی شخص کی کمائی صریحا ً حرام سے تھی اور وہ شخص اپنے اس حرام مال سے اپنے والد صاحب کو حج پر بھیجنا چاہتا تھا جبکہ والد صاحب اس پر راضی نہ تھے۔راقم الحروف نے دارالافتاء میں موجود مفتی صاحبان سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فوراً فقہ کی کسی کتا ب کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حرام کی کمائی سے حج نہیں ہوتا لہٰذااس کے والد کے لیے حج پر جانا جائز نہیں ہے۔یہ جواب حاصل کر کے ابھی کھڑا ہی ہوا تھا کہ مفتی صاحب کہنے لگے ایک حیلہ بھی بتا دوں۔میں نے کہا: بتا دیں۔تو وہ فرمانے لگے کہ سائل کے والد صاحب سے کہیں کہ کسی سے قرض لے کر حج پر چلیں جائیں اور اس قرض کی ادائیگی ان کا بیٹا کر دے۔
اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے قائلین کی اصل بنیاد کو واضح کیا جاسکے۔ چونکہ متاخرین میں حیلوں کے استعمال کا ایک پورا باب ہے اور ان حیلوں کو بالعموم استعمال بھی کیاجاتا ہے لہذا لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے بھی ان حیلوں کو استعمال کیاگیا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایک ایسا حیلہ کہ جس سے کوئی شرعی فرض ساقط ہو جائے یا کوئی حرام ‘ حلال بن جائے وہ فقہاء کے نزدیک ناجائز حیلہ ہے‘ لیکن متاخرین کے ہاں بہت سے ایسے حیلوں کو جائز رکھا گیا ہے کہ جن سے احکام الہی کے شرعی مقاصد فوت ہو جاتے ہوں اور اسلامی بینکاری کی بنیاد اسی قسم کے حیلوں پر ہے۔اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک حیلوں سے استدلال کی اس اصولی بنیاد کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ نہ لیاجائے گا اس وقت تک اسلامی بینکاری کے بار ے میں کوئی قابل قدر تحقیق پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسلامی بینکاری کے بعض قائلین کی طرف سے بعض ایسی نصوص پیش کی جاتی ہیں کہ جن سے اس قسم کے حیلوں کو جائز قرار دیا جاتا ہے ۔مثلاً حضرت ایوب کا اپنی بیوی کو سو کوڑوں کی جگہ جھاڑو مارنا [2]یا حضرت یوسف کا اپنے بھائی کو حیلے بہانے سے رکھ لینا[3] یا حضرت بلال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ کہنا کہ ردی کھجور کے بدلے عمدہ کھجور کمی بیشی کے ساتھ نہ بیچو بلکہ اگر ایسا کرنا ہی ہو تو پہلے اپنی ردی کھجور بیچو اور پھر عمدہ کھجور
[1] جامع الاصول : 410
[2] سورة ص : 38 : 44
[3] سورة یوسف : 12 : 70۔76