کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 18
قیمت کھانے لگ گئے) ۔ ‘‘
فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسے تمام حیلوں کو اختیار کرنا کہ جن سے شرعی احکام باطل ہو جاتے ہوں یا ناجائز کو جائز بنایا جاتا ہو ،ناجائز ہے۔[1] مثلاً اگر کسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ گیارہ ماہ سے پڑا ہے اور اب وہ شخص زکوۃ سے بچنے کے لیے سال گزرنے سے ایک دو ہفتے پہلے وہی مال اپنی بیوی کو ہبہ کر دیتا ہے تو اب اس پر زکوۃ نہ ہو گی کیونکہ اس رقم پر ایک مکمل سال نہیں گزرا۔اسی طرح اگلے سال اس کی بیوی سال گزرنے سے پہلے یہی رقم اپنے شوہر کو ہبہ کر دیتی ہے اور اس طرح وہ مال پھر زکوۃ سے بچ جاتا ہے ۔
حیلوں کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں بظاہر کوئی فرض یا واجب حکم ساقط تو نہیں ہوتا ہے لیکن اس حکم سے مطلوب شرعی مقاصد پورے نہیں ہوتے ہیں۔ اس قسم کے حیلوں کی ایک صورت جو عام طور پر رائج ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص زکوۃ سے بچنے کے لیے کسی ایسے شخص کو تلاش کرتاہے جو زکوۃ کا مستحق ہو ۔اب اس شخص کو زکوۃ کی رقم دینے سے پہلے وہ صاحب یہ طے کرتا ہے کہ وہ شخص یہ زکوۃلینے کے بعد اس رقم کا ایک معمولی ساحصہ اپنے پاس رکھے گا اور باقی رقم زکوۃ دینے والے کو ہبہ کر دے گا۔لہذا اگر کسی شخص کی زکوۃ 50ہزار بنتی ہے تو مستحق زکوۃ شخص وہ زکوۃ وصول کرنے کے بعد اس میں سے 2 یا 3 ہزار خود رکھ لیتا ہے اور باقی رقم زکوۃ دینے والے کو ہبہ کر دیتا ہے ۔
اس طرح کے حیلے کے نتیجے میں زکوۃ کے حکم کا جو شرعی مقصد تھا یعنی غربا، مساکین اور محتاجوں کی امداد یاصاحب مال کا تزکیہ نفس وغیرہ، تو وہ فوت ہو جاتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ زکوۃ کسی بستی کے امراء سے وصول کی جائے او ر اسی بستی کے غریبوں کی طرف لوٹا دی جائے۔[2] اگر کوئی عالم ایسے حیلے اختیار کرے کہ جن سے وہ زکوۃ دوبار ہ امراء کی طرف واپس لوٹ جائے تو یہ حیلے شرعا ًنا جائز ہوں گے۔اور ان حیلوں کی ممانعت نصوص شریعہ سے ثابت ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن لکھتے ہیں:
’’تمام فقہاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ شرعی احکام کے ابطال کے لیے حیلوں کا استعمال ناجائز ہے۔ احناف کے ہاں ہمیں حیلوں کے استعمال کا جواز ملتا ہے۔امام محمد بن الحسن کی طرف اس موضوع پر ایک کتاب بھی منسوب ہے۔اور خصاف کی حیل پر ایک کتاب ہے۔ان حیلوں سے فقہائے احناف کی مراد وہ حیلے نہیں ہیں جن سے شرعی احکام باطل ہو جاتے ہیں ‘ اور وہ مصالح فوت ہو جاتی ہیں جن کے لیے یہ احکام دیے گئے ہیں۔بلکہ ان حیلوں سے مقصود وہ راستے اور وہ وسیلے تلاش کرنا ہے جن سے یہ مصالح پورے ہوں‘ نہ کہ شرعی احکام کی خلاف
[1] احمد حسن ، ڈاکٹر، جامع الاصول : 416۔418، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
[2] الترمذی، أبو عیسی محمد بن عیسی، سنن الترمذی،کتاب الزکاة عن رسول الله، باب ما جاء أن الصدقة تؤخذ من الأغنیاء فترد على الفقراء: 649، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض