کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 134
واحد کو جب امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو وہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘
اس مسئلہ پر مزید معلومات کے لئے اِمام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’مختصر الصواعق المرسلة‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتا ب ’’النکت على ابن الصلاح‘‘ کی پہلی جلد کی طرف مراجعت فرمائیں۔ یہ تھے وہ چند اقتباسات جن میں موصوف نے اپنی کمزور اور منفرد رائے کے ساتھ احادیث نبویہ کورد کردیا ہے۔ مزیدچند احادیث بھی ہیں، جن سے متعلق شیخ نے کلام کی ہے، مثلاً
٭ حجاب سے متعلق احادیث
٭ مسجد میں عورت کی نماز سے متعلق احادیث
٭ وضو کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے سے متعلق احادیث
٭ نذر سے متعلق احادیث
٭ لڑائی سے قبل دعوت اسلام سے متعلق احادیث
٭ زہد اور اللہ تعالیٰ کی پنڈلی سے متعلق احادیث
٭ قیامت کے دن مسلمانوں کے بچوں سے متعلق احادیث وغیرہ وغیرہ
نتیجہ بحث
اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ شیخ غزالی درج ذیل امور میں الجھے ہوئے ہیں:
۱۔ ان کے کلام میں علمی اسلوب کی بجائے خطابی اسلوب غالب ہے۔
۲۔ ان کی آراء اور فکر میں بھی تناقض ہے۔ لہٰذا ان کی فکر کومنظم طریقے سے جمع کرنا مشکل ہے، کیونکہ ایک مقام پر ایک بات کہہ دیتے ہیں جبکہ دوسرے مقام پر ازخود اپنا رد بھی کردیتے ہیں۔
۳۔ خبر واحد سے متعلق ان کا منہج جمہور امت سے مختلف ہے۔ بسااوقات وہ خبر واحد کو قبول کرلیتے ہیں اور بسااوقات اس کا رد کردیتے ہیں۔
۴۔ وہ عام طور پر دورِ حاضر کی علمی اور تہذیبی ترقی سے مرعوب ہوجاتے ہیں، چنانچہ مختلف مسائل میں ان کی طرف اپنا میلان ظاہر کرتے ہیں۔
۵۔ اجماع امت کی مخالفت کرتے ہیں اور مسائل فقہیہ میں شاذ آراء کے حامل ہیں۔
۶۔ اہل علم میں سے جب کسی کا قول ان کے نظریے کے موافق ہوتاہے تو بطور دلیل اس کے قول کو پیش کرتے ہیں اور اگر ان کے نظریے کے خلاف ہو، تو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔